فائز
ج۔ ابن جوزی اپنی کتاب المنتظم فی تاریخ الملوک والأمم میں شہدائے کربلا کی تعداد کے سلسلے سے رقمطراز ہیں : وعبّأ الحسين أصحابه و كانوا اثنين و ثلاثين فارسا، و أربعين راجلا ۔ (۱) امام حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو آمادہ کیا جن کی تعداد بتیس سوار اور چالیس پیادے تھی۔
کربلا کے واقعہ میں سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے باوفا ساتھیوں اور آپ کے ہمراہ شہید ہونے والے عظیم الشان شہداء کی تعداد کے سلسلے سے مشہور و معروف قول یہ ہے کہ ان جاں نثاروں کی تعداد بہتر ہے جسے مختلف مصنفین و مؤلفین نے نقل کیا ہے جیسے ہمارے بزرگ عالم دین جناب شیخ مفید رحمۃ اللہ علی
امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا : أَیُّهَا النَّاسُ أُعْطِینَا سِتّاً وَ فُضِّلْنَا بِسَبْعٍ أُعْطِینَا الْعِلْمَ وَ الْحِلْمَ وَ السَّمَاحَةَ وَ الْفَصَاحَةَ وَ الشَّجَاعَةَ وَ الْمَحَبَّةَ فِی قُلُوبِ الْمُؤْمِنِینَ وَ فُضِّلْنَا بِأَنَّ مِنَّا النَّبِیَّ الْمُخْتَارَ مُحَمَّداً وَ مِنَّا الصِّ
اہلبیت طاہرین علیہم السلام کے گھرانے سے تعلق رکھنے والی خواتین ، معصوم بچوں اور غل و زنجیروں میں جکڑے ہوئے امام زین العابدین سید الساجدین حضرت علی بن الحسین علیہ السلام کو قیدیوں کی شکل میں جب یزید پلید کے محل میں داخل کیا گیا تو سات سو کرسی نشین سامنے تھے ، ان ہستیوں کو قیدی اور غلاموں کی شکل می
ایک مرتبہ پھر ، شاہ چراغ شیراز میں عبادت میں مصروف بے گناہ زائرین ، مغربی ممالک کے ہاتھوں پروان چڑھنے والے وہابی درندوں کی درندگی کا شکار ہوگئے ، ابن تیمیہ کے فاسد عقیدے اور آئیڈیالوجی پر پلنے والے درندے جو اسلامی تعلیمات اور پیغمبر رحمت کی فرمایشات سے کوسوں دور ہیں اور ہمیشہ مغربی مفادات کے لئے
کربلا کا واقعہ ایک ایسا عظیم اور بےنظیرحادثہ ہے جسے چودہ صدیاں گذرنے کے باوجود فراموش نہیں کیا جاسکتا اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس واقعہ کی اہمیت ، جاذبیت اور اثرگذاری میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے اور بشریت پہلے سے زیادہ انسانی سعادت فلاح اور بہبود کیلے اس واقعہ کی محتاج ہے کیونکہ انسانی اور اس