ج۔ ابن جوزی اپنی کتاب المنتظم فی تاریخ الملوک والأمم میں شہدائے کربلا کی تعداد کے سلسلے سے رقمطراز ہیں : وعبّأ الحسين أصحابه و كانوا اثنين و ثلاثين فارسا، و أربعين راجلا ۔ (۱) امام حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو آمادہ کیا جن کی تعداد بتیس سوار اور چالیس پیادے تھی۔
د۔ مہدی حائری مازندرانی اپنی کتاب معالی السبطین فی احوال الحسن و الحسین میں شہدائے کربلا کی تعداد کے سلسلے سے لکھتے ہیں : معه اثنان و ثلاثون فارسا و اربعون راجلا ۔ (۲) امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ بتیس سوارے اور چالیس پیادے تھے یعنی ۷۲ افراد ۔
ھ۔ ۔ ابن اثیر اپنی کتاب الکامل فی التاریخ میں شہدائے کربلا کی تعداد کے سلسلے سے رقمطراز ہیں : و كان معه اثنان و ثلاثون فارسا و أربعون راجلا ۔ (۳) آپ کے ہمراہ بتیس سوارے اور چالیس پیادے تھے یعنی بہتر افراد تھے۔
و۔ ابن اثیر اپنی مشہور کتاب اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ میں بھی امام حسین علیہ السلام کی رکاب میں شہید ہونے والے شہداء کی تعداد کے سلسلے سے لکھتے ہیں : و لما قتل الحسين أمر عمر بن سعد نفرا فركبوا خيولهم و أوطئوها الحسين و كان عدة من قتل معه اثنين و سبعين رجلا ۔ (۴) جب امام حسین علیہ السلام شہید ہوگئے تو عمر سعد نے اپنی سپاہ کو حکم دیا کے آپ کے جسم اقدس پر گھوڑے دوڑائے جائیں اور آپ کے ہمراہ شہید ہونے والے شہداء کی تعداد بہتر تھی۔
ز۔ محمد بن جریر طبری اپنی کتاب دلائل الامامه میں شہدائے کربلا کی تعداد کے بارے میں رقمطراز ہین: و قتل بكربلاء غربي الْفرات قتله عبيد الله بن زياد و عمر بن سعد و شمر بن ذي الجوشن بأمر يزيد بن معاوية۔۔۔ و أصحاب الحسين (عليه السلام) يومئذ اثنان و ثلاثون فارسا و أربعون راجلا منهم ثمانية و عشرون من رهط بني عبد المطلب و الباقون من سائر الناس ۔ (۵) نہر فرات کے مغربی کنارے پر امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا گیا آپ کو یزید بن معاویہ کے حکم پر عبیداللہ بن زیاد ، عمر سعد اور شمر بن ذی الجوشن نے شہید کیا۔ آگے لکھتے ہیں اس دن امام حسین علیہ السلام کے اصحاب بتیس سوار اور چالیس پیادے تھے جن میں سے اٹھارہ عبدالمطلب کی اولاد اور بقیہ دوسرے افراد تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱: ابن جوزی ، ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن محمد ، المنتظم في تاريخ الملوک و الأمم، ج ۵، ص ۳۳۸ ۔
۲: حائری مازندرانی ، مھدی ، معالی السبطین فی احوال الحسن و الحسین ، ج ۱، ص ۳۲۱ ۔
۳: ابن الاثیر جزری ، علی بن محمد ، الكامل فی التاریخ ، ج ۴، ص ۵۹ ۔
۴: ابن الاثیر جزری ، علی بن محمد ، أسد الغابة فی معرفه الصحابه ، ج ۱، ص ۴۹۹ ۔
۵: ابن جریر طبری آملی ، محمد بن جریر بن رستم ، دلائل الإمامة، ص ۱۷۸ ۔
Add new comment