داستان
امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہے کہ اپ نے فرمایا : قابیل اپنے بھائی کو صحرا میں مارنے کے بعد حیران ہوا کہ انہیں کس طرح دفن کرے اور ان کی لاش کے ساتھ کیا کرے ، چونکہ اس وقت میت کے دفن کرنے کی راہ و رسم نہ تھی ، قابیل ان کا جسم اٹھائے اِس سمت و اُس سمت حیران و پریشان چلتا رہا اور سوچتا رہا کہ ل
حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول حدیث کے مطابق اس داستان کا خلاصہ یہ ہے کہ قابیل حضرت ادم علیہ السلام کے بڑا بیٹا فاسق ، بے ادب اور بگڑا ہوا جوان تھا مگر ہابیل دیندار، با ادب اور ماں و باپ کے حق میں شفیق و مہربان بیٹے تھے ، لہذا حضرت ادم علیہ السلام کو حکم الہی ہوا کہ ہابیل کو اپنا وصی اور جان
اس واقعہ کے بعد قابیل نے اپنے ہی بھائی کے قتل کا ارادہ بنالیا ، ایک طرف دل میں پنپتا حسد اور دوسری جانب قربانی کا قبول نہ ہونا ، یہ دونوں اس بات کا سبب بنے کہ کھلم کھلا اپنے بھائی کو قتل کی دھمکی دے ، اس کے اس جملے سے بھائی چارگی ، رحم اور مہربانی سب کچھ ختم ہوگیا ۔ (۱)
مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی ولادت کے قریب «اصحاب الفيل» کا واقعہ رونما ہوا ، خداوند متعال نے سورہ فیل اور قریش میں اصحاب الفيل کی داستان کا تذکرہ کیا ہے ۔
تاریخی حقائق
بوڑھے نے عرض کیا یا ابا جعفر اپ نے کیا فرمایا ؟
قران کریم نے سورہ یوسف کو احسن القصص کے طور پر پیش کیا ہے " نحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ؛ (اے حبیب!) ہم آپ سے ایک بہترین قصہ بیان کرتے ہیں اس قرآن کے ذریعہ جسے ہم نے آپ کی طرف وحی کیا ہے اگرچہ آپ اس سے قبل (اس قصہ سے) بے خبر تھے " (۱) اور اس میں موجود دا