قران کریم کے فرمان اور ارشاد کے مطابق روزہ دین اسلام کے ارکان میں سے ہے اور تمام مسلمانوں پر واجب کیا گیا ہے، جیسا کہ قران کریم نے فرمایا : «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ؛ اے صاحبانِ ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تمہارے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے شایدتم اسی طرح متقی بن جاؤ» ۔ (۱)
روزہ کا انسانوں کی تربیت اور اس کے روحانی ارتقاء اور بلندی میں اہم کردار ہے اسی بنیاد پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم اور ائمہ اطھار علیہم السلام ، ماہ رمضان کہ جو ضیافت الہی کا مہینہ ہے استقبال کرتے تھے اور اس ماہ ضیافت الہی کے استقبال میں خاص آداب و رسومات اوراعمال انجام دیتے تھے ۔
منقول ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے ماہ شعبان کے اخری جمعہ کو ماہ رمضان المبارک کی اھمیت اور فضلیت پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: اے لوگو! رمضان وہ مہینہ ہے جس میں سبھی لوگ خدا کے یہاں مہمان بلائے گئے ہیں اور اس ماہ میں سبھی کو صاحب فضل و کرم قرار دیا ہے ، اس ماہ میں تمھاری سانسیں تسبیح ، تماری نیندیں عبادت ہیں اور پھر انحضرت (ص) قیامت کے دن روزہ داروں کے مقام اور ان کی منزلت کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا: قیامت کے دن منادی ندا دے گا کہ خدا کے مہمان کہاں ہیں ؟ پھر روزہ دار آئیں گے اور انہیں نور کے مرکب پر سوار کیا جائے گا اور اس حال میں کہ ان کے سروں پر تاج کرامت ہوگا انہیں جنت میں لے جایا جائے گا ، معصوم اماموں علیہم السلام اور دیگر مقربین بارگاہ الہی کے نزدیک یہ تمام فضلیتیں ماہ مبارک رمضان کے استقبال کی وجہ سے ہیں ، اس کے علاوہ مساجد کو صاف ستھرا کرنا ، اس کی گرد و خاک صاف کرنا ، رمضان سے پہلے رمضان کے استقبال میں روزہ رکھنا بھی استقبال رمضان کا حصہ ہے ۔
روایت میں موجود ہے کہ ماہ مبارک رمضان میں ایک ایت کریمہ کی تلاوت دیگر مہینہ میں ایک قران ختم کرنے کے برابر ہے ، ائمہ معصومین علیہم السلام ماہ رمضان کو جو ماہ نزول قران کریم ہے ، مسلمانوں کو نصیحتیں فرماتے تھے کہ اسے موسم عبادت سمجھیں ، اس کے علاوہ ان معصوم ہستیوں نے اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ قران کریم کی تلاوت ، زیادہ اور بہتر انداز میں نمازیں پڑھنے کی تاکید فرمائی ، انہوں نے فرمایا کہ مسلمان اس ماہ میں نمازیں پڑھنے میں عجلت سے کام نہ لیں بلکہ نماز کو سکون اور اطمینان کے ساتھ پڑھیں ، جس قدر رکوع اور سجدے طولانی کرسکتے ہوں اسے طولانی کریں کیوں کہ طولانی رکوع اور سجدے گناہوں میں تخفیف اور بخشش کا سبب ہیں ۔
گذشتہ زمانے سے ہی مسلمان گھرانوں میں یہ رسم رائج تھی کہ شعبان کے اخر دن کو یوم الشک کے طور منایا جاتا تھا اور اس دن لوگ روزہ رکھتے تھے کہ اگر چاند ہوگیا ہوگا تو پہلی رمضان کا روزہ ادا ہوجائے گا اور اگر پہلی رمضان نہ ہوگی تو بھی ماہ رمضان کے استقبال میں روزہ رکھ لیا گیا ، حتی بعض افراد ۲ یا ۳ روز پہلے بھی روزہ رکھا کرتے تھے لہذا اج کے زمانے میں کہ جب امکانات کی فراوانی ہے ہم سب کو بھی اچھی طرح ماہ رمضان المبارک کا روزہ رکھنا چاہے ۔
اخر میں پروردگار عالم سے دعا سے کہ ہمیں اس ماہ میں عبادتیں کرنے کی توفیق عنایت کرے اور اس ماہ میں ہماری عبادتوں کو قبول فرمائے ۔ آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم ، سوره بقرة ، ایت ۱۸۳ ۔
Add new comment