قران کریم بہت ہی واضح طور سے مسلمانوں کو زکات ادا کرنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ سورہ رتوبہ کی ۱۰۳ ویں ایت شریفہ میں ارشاد ہوا : « خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا ؛ پیغمبر آپ ان کے اموال میں سے زکوِٰلے لیجئے کہ اس کے ذریعہ یہ پاک و پاکیزہ ہوجائیں ، (۱) اور دیگر ایات میں بھی ارشاد رب باری عزت ہوا : « فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ ؛ میں عنقریب ان لوگوں کے لئے لکھ دوں گا جو خوف خدا رکھنے والے زکوِٰۃ ادا کرنے والے اور ہماری نشانیوں پر ایمان لانے والے ہیں» ، (۲) « الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ؛ جو نماز قائم کرتے ہیں زکوِٰ ا دا کرتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں»، (۳)« الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ؛ جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوِٰادا کرتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں»، (۴) و« الَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ ؛ جو لوگ زکوِٰادا نہیں کرتے ہیں اور آخرت کا انکار کرنے والے ہیں» (۵) کے مطابق مسلمانوں پر زکات کا حکم مکہ میں نازل ہوا ، مگر مسلمانوں کے مدینہ ھجرت کرجانے اور اسلامی معاشرہ کی بنیاد رکھے جانے کے بعد بیت المال کے قیام کی زیادہ ضرورت محسوس ہونے لگی لہذا انحضرت (ص) خداوند متعال کی جانب سے موظف ہوئے کہ لوگوں سے زکات وصولیں ، استعمال کریں اور اسے مسلمانوں کے بیت المال ہونے کے ناطے اس کی حفاظت کریں ۔
مذکورہ ایات کے نازل ہونے کے بعد مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے مسلمانوں کو اپنے سرمایہ میں سے زکات اور صدقہ ادا کرنے کا حکم دیا تاکہ اسے اسلامی حکومت کی تقویت ، نیاز مندوں اور ضرورتمندوں کی دستگیری ، غلاموں کی ازادی ، درماندہ مسافروں ، مقروضوں کی قرضہ ادائیگی اور دشمنوں کے دلوں میں نرمی لانے جیسے موارد میں استعمال کیا جائے ۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے اسی مقصد کے تحت پہلی محرم سن ۹ ھجری کو بعض افراد کو زکات وصولنے کی ذمہ دار سونپی اور انہیں مختلف اسلامی مناطق میں روانہ کیا تاکہ وہ زکات وصولیں۔
مسلمانوں نے مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا پیغام دریافت کرتے ہی اپنے سرمایہ سے زکات نکال کر اسلامی حکومت کے کارندوں کے حوالے کردیا مگر بعض نے حرص و لالچ ، مال دنیا سے محبت ، احکام دین اسلام سے لاعملی اور مکمل ایمان نہ لانے کی وجہ پر زکات دینے سے انکار کردیا ، حتی بعض قبائل جیسے بنی تمیم ، زکات وصول کرنے والے سے لڑنے کو بھی تیار ہوگئے تھے ۔ (۶)
مگر رسول خدا (ص) کی انتھک کوششیں ثمر بخش ہوئیں اور معاشرہ میں زکات کی رسم قائم ہوگئی ، مسلمانوں نے زکات و صدقہ ادا کرنا شروع کیا کہ جو ان کے مال و دولت میں برکت کا سبب قرار پائی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالجات:
۱: قران کریم ، سورہ توبہ ، ایت ۱۰۳ ۔
۲: قران کریم ، سوره اعراف ، ایت ، ۱۵۶ ۔
۳: قران کریم ، سوره نمل ، ایت ۳ ۔
۴: قران کریم ، سوره لقمان ، ایت ۴ ۔
۵: قران کریم ، سوره فصلت ، ایت ۷ ۔
۶ : واقدی ، محمد بن عمر ، المغازی ، ج ۲، ص ۹۷۳ ؛ و قمی ، شیخ عباس ، منتهی الآمال ، ج ۱، ص ۸۹ ۔
Add new comment