پیامبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ نے خطبہ غدیر میں امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بے شمار فضائل و کمالات بیان فرمائے ہیں ، اپ کا لامحدود علم اور علم لدنی ، اپ کی نسل سے امامت کا تسلسل اور لقب «امیرالمؤمنین» اپ سے مخصوص ہونا ، یہ فضائل کے بعض وہ گوشے ہیں جس کی جانب مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے اپنے خطبہ میں اشارہ کیا ۔
خاتم الأنبیاء صلی الله علیہ وآلہ نے اگر چہ اپنے خطبہ غدیر میں کافی باتوں کی جانب اشارہ فرمایا کہ جس میں خدا کی وحدانیت اور الوہیت کی مسئلہ ، خدا کے اوصاف و کمالات کا مسئلہ ، عربوں کی گذشتہ زندگی اور طرز حیات اور ان کے عقائد و اعتقادات کا مسئلہ نیز 23 سال میں انحضرت نے جو زحمتیں اور مشکلات برداشت کی ہیں اور سختیاں اٹھائیں ہیں اس کی جانب اشارہ فرمایا ہے پھر خدا کے اہم اور بنیادی احکامات ، حلال و حرام کا تذکرہ فرمایا ۔ [1]
مگر خطبہ غدیر کی اوج وہ مقام ہے جہاں حضرت (ص) نے قران اور اہل بیت علیہم السلام کو ایک دوسرے سے جدا نہ ہونے اور ولایت و امامت کو امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی نسل میں ہونے کا تذکرہ فرمایا ۔
ہم اپنی اس تحریر میں امیرالمؤمنین علیہ السلام کے مزید ان اوصاف و کمالات کا تذکرہ کریں گے جس کی جانب رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے خطبہ غدیر میں اشارہ فرمایا ہے ۔
امامت ، امام علی علیہ السلام کی نسل میں
پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ نے فرمایا : «ثُمَّ مِنْ بَعْدِي عَلِيٌّ وَلِيُّكُمْ وَ إِمَامُكُمْ بِأَمْر رَبِّكُمْ ثُمَّ الْإِمَامَةُ فِي ذُرِّيَّتِي مِنْ وُلْدِهِ إِلَى يَوْمٍ تَلْقَوْنَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ» «خدا کے حکم سے میرے بعد علی علیہ السلام ولی ، صاحب اختیار اور تمھارے امام ہیں ، اس کے بعد امامت ان کی نسل میں ہوگی ، یہ قانون قیامت برپا ہونے تک باقی رہے گا یہاں تک تم لوگ خدا اور اس کے رسول کا دیدار کرو» ۔ [2]
اسی بنیاد پر خدا کا ارادہ اور اس کی مرضی یہ ہے کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی نسل میں امامت کا سلسلہ قائم ہو اور امت کے ہادی و رہنما اپ ہی کی صالح اولادوں میں سے منتخب کئے جائیں ، یہ اہم مطلب اھل سنت کی معتبر کتابوں میں ذکر ہے ۔ [3]
جاری ہے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[1]. نیشابوری، عبدالحسین، غدیر عید دعا و محبت، دلیل ما، ص: 12-13 ۔
[2]. طبرسی، احمد، الاحتجاج، نشر مرتضی، ج1، ص: 59-60 ۔
[3]. عباسی، حبیب، مروارید فضائل در صدف غدیر، علامه بهبهانی، ص: 35-36 ۔
Add new comment