جس وقت انسان کی روح اس کے بدن سے نکل جاتی ہے بظاھر اس کی دنیاوی زندگی اور حیات کا خاتمہ ہوجاتا ہے لیکن اس کا ھرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ دنیا اور اہل دنیا سے بھی مردے کا رابطہ ختم ہوجاتا ہے اور ٹوٹ جاتا ہے ۔
قرآن کریم نے اگر چہ اپنی ایات میں موت اور مرگ کو فنا کے نام سے یاد کیا ہے : «كُلُّ مَنْ عَلَيْها فانٍ وَ يَبْقى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلالِ وَ الْإِكْرام»؛[1] «زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں صرف تیرے رب کی ذات جو عظمت اور عزت والی ہے باقی ره جائے گی» ۔ «كُلُّ نَفْسٍ ذائِقَةُ الْمَوْتِ»؛[2] «ہر نفس کو موت کا مزه چکھنا ہے»۔ ان دونوں ایتوں کا پیغام یہ ہے کہ ہر ذی روح کو موت کے وسیلہ دنیا چھوڑ دینا ہے اگر چہ وہ خدا کی بہترین مخلوق ہی کیوں نہ ہو ۔ [3] لیکن دیگر ایات میں مردوں کو زندہ ہونے کے خطاب سے بھی یاد کیا گیا ہے :«وَ لا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ في سَبيلِ اللَّهِ أَمْواتٌ بَلْ أَحْياءٌ وَ لكِنْ لا تَشْعُرُون»؛[4] «اور خدا کی راه میں شہید ہونے والوں کو مرده مت کہنا بلکہ وه زنده ہیں لیکن تم نہیں سمجھتے » ۔ یہ ایت کریمہ مرنے کے بعد بھی بعض انسانوں کے زندہ ہونے پر تاکید کرتی ہے اگرچہ ان کے بدن سے روح نکل چکی ہے اور وہ بظاھر انتقال کرچکے ہیں ۔
روح کا جسم سے جدا ہونا اور دنیا سے کوچ کرنا
اگر چہ روح بدن سے نکل جانے کے بعد بظاھر دنیاوی حیات اور زندگی ختم ہوجاتی ہے لیکن اس کے ہرگز معنی یہ نہیں ہیں کہ مردہ کا دنیا سے مکمل طور سے رابطہ ختم ہوجاتا ہے ، یہ بات دینی مطالب اور بزرگان دین کہ سیرت سے بھی بات ثابت شدہ ہے کہ مرنے اور انتقال کے بعد بھی مردوں کا دنیا سے رابطہ رہتا ہے ۔
سنی مذھب کے بزرگ اور برجستہ عالم دین انس بن مالک رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ سے نقل کرتے ہیں کہ انحضرت (ص) نے فرمایا : «جب میت کو قبر میں رکھ کر تشییع کرنے والے لوٹتے ہیں تو مردہ ان کے جوتوں کی اوازیں سنتا ہے اور دوفرشتہ اس کے قریب اکر اسے اٹھاتے ہیں » ۔ [5]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[1]. قران کریم ، سورہ رحمان ، ایت 26و 27 ۔
[2]. قران کریم ، سورہ آل عمران ، ایت 185 ۔
[3]. قران کریم ، سورہ زمر، ایت 30 ۔
[4]. قران کریم ، سورہ بقره ، ایت 154 ۔
[5]. بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، ج2، ص90 ۔
Add new comment