امام حسین علیہ السلام کو جب اہل کوفہ کے خطوط دریافت ہوئے تو اپ نے اہل کوفہ کے جواب میں اور کوفے کے حالات جاننے کیلئے حضرت مسلم کو کوفے روانہ کیا ، اپ نے اہل کوفہ کے نام خط میں تحریر فرمایا: « وَ قَدْ بَعَثْتُ اِلَیْکُمْ اَخی وَ ابْنَ عَمّی وَ ثِقتی مِنْ اَهْلِ بَیتی مُسْلمَ بْنَ عَقیلٍ وَ اَمَرْتُهُ اَنْ یَکْتُبَ اِلیَّ بِحالِکُمْ وَاَمْرِکُمْ وَرأیِکُمْ فَاِنْ کُتِبَ اِلَیَّ اَنَّهُ قَدْ اَجْمَعَ رَاْیُ مَلَئِکُمْ وَذَوی الفَضْلِ وَ الْحِجی مِنْکُمْ عَلی مِثْلِ ما قَدِمَتْ عَلَیَّ بِهِ رُسُلُکُمْ وَ قَرَأتُ فی کُتُبِکُمْ اَقْدِمُ عَلَیْکُمْ وَ شیکاً اِنْ شاءَ اللّه . فَلَعَمْری ما الْاِمامُ اِلّا العامِلُ بِالْکِتابِ وَ الْآخِذُ بِالْقِسْطِ، وَ الدّائِنُ بِالْحَقِّ وَ الْحابِسُ نَفْسَهُ عَلی ذاتِ اللّه ِ وَالسَّلام» ۔ (۱)
میں اپنے بھائی ، چچا کے بیٹے ، اہل بیت کے مورد اعتماد ، فرد کو تمھاری جانب بھیج رہا ہوں ، انہیں حکم دیا ہے کہ تمھارے حالات ، نظریات اور کردار لکھ کر مجھے بھیجیں ، لہذا اگر انہوں نے مجھے تحریر کیا کہ کوفے کے دانشوروں اور بزرگوں کے نظریات ماضی کے مانند ہیں جیسا کہ تمھارے سفیروں (ایلچی) نے تذکرہ کیا ہے اور خطوط سے بھی ظاھر ہے تو خدا کے فضل و کرم سے تمھاری جانب تیزی سے چل کر آوں گا ، خدا کی قسم ! امام نہیں ہوسکتا مگر یہ کہ وہ کتاب خدا (قران) پر عمل کرے اور عدالت کے مطابق حکمرانی کرے ، دیندار اور دین کا پابند ہو ، اپنے نفس کو خدا کے مطالبات کے مقابل روکے رکھے یعنی خدا کے سامنے تسلیم محض ہو اور بغیر کسی چون چرا کئے خدا کی پیروی کرے ۔
پھر امام حسین علیہ السلام نے اپنا خط حضرت مسلم ابن عقیل علیہ السلام کو دیا اور فرمایا: «میں تمہیں کوفہ بھیج رہا ہوں ، جو بھی خدا کی مرضی اور اس کے مورد پسند ہوگا وہی تمھاری مقدر ہوگا ، مجھے پسند ہے کہ تمھارے ہمراہ شھیدوں کی فہرست میں قرار پاوں لہذا جو خدا کی مرضی ہو اس پر راضی و خوشنود رہنا » ۔ (۲)
امام حسین علیہ السلام نے حضرت مسلم ابن عقیل علیہ السلام کو اپنا اور اہل بیت رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کا مورد اعتماد بتا کر کوفے والوں کو ان کی بیعت کی دعوت دی ، اہل کوفہ نے بیعت تو کی مگر وفا نہ کیا ، نتیجہ میں اس سفیر حسینی کا لہو کتاب کربلا کا سرورق بن گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: مقتل خوارزمی، ج۱، ص ۱۹۵
۲: الفتوح ابن میثم کوفی، ج ۵، ص ۳۰ ۔
Add new comment