ہمارے معاشرہ میں نذروں کا رواج بہت عام ہے، اسی میں سے ایک ۲۲ رجب یعنی کونڈوں کی نذر ہے جسے مکمل عقیدت اور ذوق و شوق کے ساتھ انجام دیا جاتا ہے ، کونڈے کی نذر تمام مسلمان یعنی شیعہ و سنی دونوں ہی مل جل کر مناتے ہیں اور ایک دوسرے کے یہاں اس نذر کو چکھنے کے لئے پہنچتے ہیں ۔
البتہ تاریخ گزرنے اور دنیا میں وھابی افکار کے جنم لینے سے کہ جو اصل نذر و نیاز اور فاتحہ خوانی کے مخالف ہیں ، اہل سنی کے یہاں یہ نذر کم رنگ یا تقریبا ختم ہوگئی ۔
کونڈے کی تاریخی حیثیت
بظاہر اس نذر کی شروعات 1906 عیسوی میں ریاست رامپور کے مشھور ’امیر مینائی‘ کے خاندان سے اس وقت ہوئی جب ایک کتابچہ ’’داستانِ عجیب‘‘ کے نام سے چھپوایا گیا ، چونکہ اس زمانے میں لکھنو میں شیعوں کا دوردورہ تھا اس نذز کا چلن عام کردیا۔
کچھ تعصب مزاج افراد اس بات کے دعویدار ہیں کہ 1911 عیسوی تک یہ سالانہ نذر، اودھ میں عام ہوگئی کیوںکہ وہ زمانہ شیعوں کی حکومت کا زمانہ تھا اور’’الناسُ علی دین ملوکھم‘‘ کے مطابق سنی اور شیعہ مل کر کونڈے کی نذر و نیاز کا اہتمام کرنے لگے۔ [1]
مگر یہ تجزیہ جانبدارانہ ہے کیونکہ حکومت اودھ کا دورہ 1732 سے شروع ہوا اور 1856 میں ختم ہوگیا ، اور پھر سنی عوام کی شرکت کا سبب حکومت کا دباو نہیں تھا بلکہ اسکی وجہ اہلبیت اطھار علیہم السلام سے انکی بے لوث محبت تھی ، مگر مفتی صاحب نے’البغض یعمی و یعصم‘ کے مطابق فتوا دے ڈالا کہ اس رسم میں ہرگز شرکت نہیں کرنی چاہئے، بلکہ حتی الوسع اسے مٹانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ [2]
دو اہم نکتہ:
1) اس نذر کے واقعہ کو امام معصوم (علیہ السلام) سے منسوب کیا جاتا ہے جبکہ یہ واقعہ جھوٹا اور منگڑھت ہے اور تمام فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ غیر یقینی بات کو کسی معصوم کی جانب منسوب کرنا حرام ہے۔
2) دین کا جزء یا واجب سمجھ کر انجام دینا غلط ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[1] ۔ ابوجنید ، محمد صادق خلیل ، رجب کے کونڈوں پہ ایک نظر ۔
[2] ۔ مولانا خیر محمد جالندھری ، خیرالفتاوی ، فتوای نمبر 1/572 ۔
Add new comment