انسانی بیداری کا آغاز مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی بعثت سے ہوا ، اس دور کا انسان جہالتوں میں غرق ، انسانی اقداروں سے کوسوں دور ، لہو و لعب ، عیش و نوش کے نشے میں دھت حیوانیت کو گلے لگائے ہوئے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو ہی زندہ درگور کردیا کرتا تھا ، صبر ، گذشت اور فداکاری کا معاشرہ میں فقدان تھا اور وہ لوگ ہر چھوٹی موٹی بات پر برسوں جنگ و قتل عام میں گزار دیا کرتے تھے کہ اس بیچ سرزمین مکہ کے افق پر ہدایت کا سورج طلوع ہوا ، آمنہ بنت وهب کی گود میں آنے والا چاند سا ایک ٹکڑا غریبوں ، ناداروں ، مظلوموں اور بیکسوں کا میسحا بن کر ابھرا جس نے انسانی اقداروں کی پاسبانی کا پرچم بلند کیا ۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے اپنی دعوت کا آغاز ، مشرکین مکہ کو کثرت سے وحدت کی جانب دے کر کیا ، «قولوا لا إله إلا الله، تفلحوا» (۱) یعنی انسانوں کی کامیابی و کامرانی فقط و فقط وحدت اور توحید میں پوشیدہ ہے ، انسان کے لئے روا نہیں وہ خود جیسوں یا اپنے سے بھی پست یعنی حیوانات ، نباتات اور جمادات کی عبادت کریں کیوں کہ وہ الھی خلقت کا عظیم پیکر ہیں ، « لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ؛ بیشک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے » (۲)
انسانوں کو وحدت اور توحید کے محور پر اکٹھا کرنا ہدایت کا وہ عظیم فارمولا اور نسخہ ہے جسے مرسل اعظم (ص) نے انتخاب فرمایا کیوں کہ جب تک انسان کی فکری ، ذھنی اور جسمانی لحاظ سے الگ الگ قوم ، قبیلہ ، خاندان اور گھرانے سے وابستگی رہے گی وہ انہیں کی خوشنودی اور ارتقاء میں قدم آگے بڑھائے گا ۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: أقامَ رسولُ اللّه صلى الله عليه و آله بمكّةَ ثلاثَ سِنينَ مِن أوّلِ نُبُوّتهِ مُستَخفِيا ، ثُمّ أعلَنَ في الرّابعَةِ، فدَعا النّاسَ إلَى الإسلامِ عَشرَ سِنينَ ··· حتّى إنّهُ لَيَسألُ عنِ القَبائلِ و مَنازِلِها قَبيلَةً قَبيلَةً و يقولُ : يا أيُّها النّاسُ، قُولوا : لا إلهَ إلاّ اللّه تُفلِحوا و تَملِكوا بها العَرَبَ و تَذِلُّ لَكُمُ العَجَمُ ، و إذا آمَنتُم كُنتُم مُلوكا في الجَنّةِ. و أبو لَهَبٍ وراءَهُ يقولُ : لا تُطِيعوهُ؛ فإنّهُ صابئٌ كاذِبٌ ! محمد بن سعد ، الطبقات الكبرى ، ج ۱ ، ص ۲۱۶ ۔
۲: قران کریم ، سورہ تین ، ایت ۴ ۔
Add new comment