بلا شک و شبہہ اسلامی طرز زندگی کا اہم ترین گوشہ حجاب اور عفاف ہے کہ جو میدان کربلا میں موجود خواتین کے مورد توجہ تھا اور انہوں نے مکمل طور سے اس کی مراعات کی ۔
اس وقت کہ اربعین حسینی قریب ہے اور کربلا دنیا کے عاشقوں کی وعدہ گاہ جہاں مرد و عورت ، بڑے و بچے ، بوڑھے اور جوان سبھی امام حسین علیہ السلام اور اپ کے اصحاب با وفا کے قدموں میں عقدیت کے پھول نچھاور کرنے کے لئے حاضر ہورہے ہیں ، ایسے موقع پر اسلامی طرز زندگی پر گفتگو اور مغربی دنیا کی جانب خواتین کے غلط استعمال نیز ان سے سوء استفادہ پر تنقید لازمی و ضروری اور وقت کی اہم ضرورت ہے ۔
دین اسلام کی نگاہ میں عورت کی عزت اور اس کا احترام فقط اور فقط عفت کے زیر سایہ ممکن ہے ، پردہ ایک الھی اور اسلامی قانون ہے جسے خواتین کی حفاظت ، امنیت ، عفت اور طھارت کے لئے قرار دیا گیا ہے ، قیام عاشورا کا مقصد بھی جیسا کہ امام حسین علیہ السلام نے متعدد مقامات پراس کا تذکرہ بھی کیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی امت کی اصلاح اور دینی اقتداروں کو زندہ کرنے کے لئے عمل میں ایا تھا ، اور ان اسلامی اور انسانی اقتداروں میں ایک ، مسلمان عورت کا پردہ دار رہنا اور با عفت ہونا ہے ۔
امام حسین علیہ السلام کے اہل حرم بھی مدینہ سے کربلا تک اور پھر شام سے مدینہ تک انہیں اسلامی اقداروں کے محافظ رہے ، بی بیوں نے تپتی ہوئی سرزمین کربلا کی گرمی برداشت کی مگر کسی بھی حال میں اپنے پردے سے ہاتھ نہیں کھینچا ، لہذا دور حاضر کی حسینی خواتین کے دوش پر بھی یہ وظیفہ اور ذمہ داری آتی ہے کہ وہ بھی حضرت زینب سلام الله علیها اور امام حسین علیه السلام کے دیگر اہل حرم کی سیرت کو اپناتے ہوئے اربعین کے پیدل مارچ کے تقدس کو اپنے پردہ کی حفاظت کر کے محفوظ رکھیں ۔
امام حسین علیہ السلام کے اہل حرم اور تمام خواتین کو اس بات کا مکمل دھیان تھا ، انہیں اس بات کا مکمل خیال تھا کہ جہاں تک ممکن ہے اپنے پردہ کی حفاظت کرکیں ، اسی بنیاد پر سہل بن سعد کہ جو کوفہ میں اہل حرم کو پہچان گئے تھے کہ ان کا تعلق خاندان مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم میں سے ہے اور اپ کی نسل میں سے ہیں ، انہوں نے اہل حرم کے پاس اکر سوال کیا کہ تم کون ہو ؟ جواب ملا کہ ہم سکینہ [علیھا السلام] حسین ابن علی علیہ السلام کی بیٹی ہیں ، انہوں نے سوال کیا کہ تمھیں کوئی ضرورت ہے ؟ میں سهل بن سعد اپ کے جد رسول خدا [صلی اللہ علیہ و الہ وسلم] کا صحابی ہوں ، تو جناب سکینہ نے فرمایا : ان نیزہ برداروں سے کہدو کہ ہم لوگوں سے آگے آگے چلیں تاکہ لوگ انہیں دیکھنے میں مصروف رہیں اور کوئی آل رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کو ٹکٹی باندہ کر نہ دکھے ، سہل بن سعد تیزی سے گئے اور انہوں نے نیزہ برداروں کو چار سو درھم دیئے تاکہ سروں کو اہل حرم سے دور لے جائیں ۔ (۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: مقتل الحسين ، مقتل الحسين علیہ السلام خوارزمى، ج۲، ص۶۱ ۔
Add new comment