اہلسنت مفسر آلوسی اپنی کتاب تفسیر روح المعانی میں آیت مباہلہ کے سلسلہ میں تحریر کرتے ہیں : " اس سلسلہ میں کہ ایت مباھلہ اھلبیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی فضلیت اور ان کی صداقت پر دلالت کرتی ہے کسی مومن کو شک و شبہ نہیں اور ناصبیوں کا یہ گمان کہ یہ آیت اہل بیت علیہم السلام کی فضیلت پر دلالت نہیں کرتی محض ہزیان اور شیطانی ذھنیت کی نشانی ہے"۔
جاراللہ زمخشری کا اس سلسلہ میں کہنا ہے: "اصحاب کساء کی فضیلت پر مضبوط ترین دلیل، آیت مباہلہ ہے"۔
فخررازی نے لکھتے ہیں: " مفسرین اور محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین علیہم السلام کے ساتھ مباہلہ کے لئے تشریف لے گئے اور اس سلسلہ میں موجود تمام روایتوں کی سند صحیح و معتبر ہیں ۔
وی مزید تحریر کرتے ہیں کہ : "پیغمبر اسلام (ص) نے اہل بیت علیھم السلام کے اکٹھے ہونے کے بعد، آیت تطہیر کی تلاوت کی ہے"۔ (۱)
بیضاوی اپنی تفسیر میں آیتِ مباہلہ کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ : "پیغمبر اسلام (ص) علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیھم السلام کو نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ کرنے کے لئے اپنے ساتھ لائے اور ان سے فرمایا: جب میں دعا کروں تو تم لوگ آمین کہنا۔
عیسائیوں کے دینی پیشوا [اسقف اعظم] نے جب ان پانچ مقدس ہستیوں کو مباھلہ کے لئے اپنے روبرو پایا تو کہا: اے عیسائیو! میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں جو اگر پہاڑ کو اس کی جگہ سے ہٹنے کا اشارہ کردیں تو پہاڑ اپنی جگہیں چھوڑ دیں گے ، ان سے مباہلہ مت کرو کہ ہلاک ہوجاؤگے، پھر وہ جزیہ دینے پر راضی ہوگئے۔
پیغمبر اسلام (ص) نے مباھلہ کے سلسلہ میں فرمایا: قسم اس اللہ کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اگر وہ مباہلہ کرتے تو بندر اور سور کی شکل میں بدل [مسخ] جاتے ۔ نجران اور اہلِ نجران، حتی ان کے درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندے بھی تباہ ہوجاتے۔
بیضاوی اس واقعہ کے سلسلہ میں تحریر کرتے ہیں کہ "و هو دليل علي نبوته و فضل من أتي بهم من اهل بيته ؛ اور یہ (واقعہ) آنحضرت (ص) کی نبوت اور جو آپ (ص) کے اہل بیت (ع) جو مباہلہ کے لئے اپ (ص) کے ہمراہ آئے تھے ، ان کی فضیلت پر دلیل و گواہ ہے"۔ (۲)
محمد بن جریر طبری متوفی 310 ھ ق اپنی معروف تفسیر "الطبری" میں ایت مباہلہ کے شان نزول میں بیان کرتے ہیں کہ : « پیغمبر اسلام(ص) ، نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ کیلئے علی ، فاطمه ، حسن و حسین علیھم السلام کے ہمراہ نکلے مگر نجران کے عیسائیوں نے ان سے مصالحت کرلی اور جزیہ دینے پر راضی ہوگئے ۔ » (۳)
نصر بن محمد سمرقندی متوفی 375 ھ ق اپنی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں کہ : « پیغمبر اسلام(ص) نے نجران کے عیسائیوں کو مباہلہ کی دعوت دی اور اس مباہلہ کیلئے علی ، فاطمه ، حسن و حسین علیھم السلام کے ہمراہ نکلے مگر انہوں نے مباہلہ نہ کیا ، اس وقت پیغمبر اسلام (ص) نے ان سے کہا کہ اسلام لے آو یا جزیہ دو تو وہ جزیہ دینے پر راضی ہوگئے اور واپس لوٹ گئے ، اس وقت پیغمبر خدا (ص) نے فرمایا " اگر انہوں نے مباہلہ کیا ہوتا تو سب کے سب ہلاک ہوجاتے حتی درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندے بھی ۔ » (۴)
۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: حسن حکیم باشی ، پژوهش های قرآنی، اهل بيت و اسباب نزول، دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم ، ص ۵ ۔
۲: ایلقار اسماعیل زاده ، آیه مباهله سند فضیلت اهل بیت ۔
۳: جامع البیان عن تأویل آی القرآن، ج ۳، ص ۲۹۹ـ۳۰۱، جزء ۳ (ذیل آیه ۶۳ سوره آل عمران) ۔
۴: السمرقندی، تفسیر السمرقندی، ج ۱، ص ۲۷۴ـ۲۷۵، دارالکتب العلمیة، بیروت، چاپ اول، ۱۹۹۳ عیسوی ۔
Add new comment