ایک دوسرے سے محبت اور احسان کا برتاؤ،تعلیمات،نصحتیں اور بے لوث خدمتپیش کرنا ایمان کے اثرات میں شامل ہے خاص طور پر ایسے لوگوں کےساتھ محبت و احسان کا برتاؤ جو کمزور اور مایوس یا بوڑھے اور کم درآمد والے ہیں،اگرچہ لوگوں کا محبت کا بھوکا ہونا ان پر احسان کرنے سے جدا ہے،قرآن مجید نے انفاق کے باب پر بھرپور توجہ دلائی ہے اسی طرح روحانی تکلیف نہ پہچانے پر بھی تاکید کی ہے۔
مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو انسان کی زندگی میں ایمان کا کردار بہت ہی اہم ہے کیونکہ انسان اپنی زندگی میں اگر ایمان رکھتا ہوگا تو پھر یہ ایمان انسان کو ایک مقصد اور ہدف اور آخری منزل عطا کرتا ہے اور پھر ایمان کی خاصیت یہ ہے کہ فکر وں اور سوچنے سمجھنے، خیالات اور آرزوؤں اور خواہشات انسانی کو ایک مرکزی نقطہ عطا کر دیتا ہے اور ایمان مرکزی نقطہ بن جاتا ہے اور تمام خواہشات اور آرزو ،سوچ اور فکر اسی مرکزی نقطے کے اردگرد درد قرار پاتی ہیں۔
ایسا انسان، آج کی اصطلاح میں ایک صاحب مکتب انسان کہلاتا ہے، ایک باایمان انسان ، تمام چیزوں کو اپنے ایمان کی کسوٹی پر پرکھتا اور حساب کرتا ہے اورہر وہ کام ہے جو اس کے ایمان کے مطابق ہوتا ہےاور اصطلاحاًعمل صالح ہوتا ہے اس کے پیچھے لگ جاتا ہے اور اسے انجام دیتا ہے ورنہ اس کی طرف منہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔
ایمان کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسان کے لئے ایک آئیڈیل راستہ طئے کردیتا ہے اور اور اس آئیڈیل راستےکی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ انسان کی تمام تلاش و کوشش کو بکھرنے سے نجات دے دیتا ہے اور انسان کے تمام وجود کو اور اس کی تمام طاقت و قوت کو اور اس کی تمام فعالیت کو ایک مرکزی نقطہ اور ایک سمت و سو دے دیتا ہے اور وہ اسے ایک ہی منزل کی طرف کا راہی بنا دیتا ہے۔([1])
ایمان انسان کو کسی حد تک منفعت پسندی سے روکنے کے قابل ہے ، اور وہ انسان کو ذاتی اور مادی مفادات سے بالاتر خواہشات اور نتائج کی پیش کش کرتا ہے ان ساری چیزوں کو ایمان سامنے لاکر پیش کردیتا ہے اور تخلیق کرتا ہے،اور پھر جب ایمان انسان کو ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر سوچنےکا جذبہ عطا کر دیتا ہے تو پھر عقل بھی انسان کو اس کے مطلوب و مقصود تک پہنچا دیتی ہے کیونکہ عقل انسان کو اسی منزل و مطلوب تک پہنچاتی ہے اور اسی منزل کی طرف ہدایت کرتی ہے جس کی طرف انسان خود جانا چاہے کیونکہ جس کی طرف انسان جانا چاہے گا عقل اسے اسی کی جانب لے کر جائے گی کیونکہ عقل کی مثال ایک چراغ کی سی ہے، جب آپ چراغ کواپنے ہاتھوں میں تھامےاندھیرے میں پہنچتےہیں تو چراغ آپ سے یہ نہیں کہے گا کہ اس طرف جاؤ یا اس طرف جاؤ ؛چراغ تو بس اتنا کہے گا کہ تم جس طرف بھی چاہو جاؤ میں بس تمہارے لئے راستے روشن کرتا چلا جاؤں گا۔([2])
ایمان کے آثار کیا ہیں؟
- ایمان کے آثار میں سے ایک یہ ہے کہ وہ تلخیوں کو شیریں اور اور کام کی سختیوں کو آسان بنا دیتا ہے کیونکہ ایمان انسان کے اندر دنیا کو دیکھنے کا نظریہ بدل دیتا ہے،دنیا کومحبت لٹاتی کائنات کے نظریہ سے دیکھنے والا بنادیتا ہے۔
- ایمان کے فوائد و آثار میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایمان مصائب و مشکلات کو برداشت کرنے کا کے قابل بنا دیتا ہے۔قرآن مجید کا ارشاد ہے: ﴿الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ﴾([3])،کیونکہ ایمان ایک برتر منطق کا نام ہےیعنی ایمان چیزوں کی کمی اور کاستی کو دورکرنے والا اور انکی حمایت کرنے والا ہےاور مختلف حالات و حادثات میں بہتر اور اچھا عکس العمل پیش کرتا ہے۔
- ایمان کے آثار میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ بڑھاپے اور ضعیفی کو مطبوع اور پسندیدہ بنا دیتا ہے۔
- ایمان کے فوائد و آثار میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ موت کی وحشت کو دور کر دیتا ہے اس بات سے وحشت کہ موت ختم ہوجانے کا نام ہو؛دوسرے لفظوں میں اگر کہا جائے تو ایمان موت کے مفہوم کو کو بدل دیتا ہے اورفنا ہوجانے کے مفہوم کو تحوّل اور تکامل میں بدل کر اسے کمال تک پہنچنے کا وسیلہ بنا کر پیش کرتا ہے....
- ایمان کا ایک اور اثر یہ ہے کہ وہ اخلاق کا پشت پناہ ہے ،اور اس کا مددگار ہے، با ایمان انسان کا اخلاق محکم نظر آئے گا ،یعنی با ایمان شخص کا اخلاق ایسا ہوگا کہ نہ ہی اسکی شہوات اس پر غالب نظر آئیں گی اور نہ ہی دوسروں کا ڈر اور خوف اسکے پایۂ استقامت کو متزلزل کرپائے گا، کیونکہ اخلاق کو ہمیشہ ہی ان دو چیزوں سے خطرہ لاحق ہوتا ہے: ایک حرص و لالچ اور دوسرے ڈر ، خوف اور دھمکیاں....
- ایمان کا ایک اور اثر یہ بھی ہے کہ وہ عدالت کا ہمرکاب اور اس کا پشت پناہ ہے ،ہم نے «معاشرتی عدالت» کے ضمن میں یہ بات بیان کی ہے کہ انبیاء اور دیگر مصلحین کے درمیان فرق ہی یہ ہے کہ سماجی مصلحین صرف عادلانہ قانون لائے یاچاہتے تھے کہ عادلانہ قانون لائیں لیکن انبیاء نہ صرف یہ کہ عادلانہ نظاام کا نفاذ چاہتے تھے بلکہ عدالت پر ایمان اور دوسروں کےحقوق کے احترام کی رعایت کو بھی نافذ کرنا چاہتے تھے۔
- ایمان کے آثار میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایمان ذہنی ، فکری ، ٹینشن،پاگل پن اورذہنی اختلال جیسی بیماریوں سے بچاتا ہے ، ہم نے دوسرے نمبر میں بیان کیا کہ ایمان مصائب و مشکلات کو برداشت کرنے کا کے قابل بنا دیتا ہے ،وہ اس لحاظ سے تھا کہ انسان پر کس قدر مشکلات کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں تو اس مقام پر ایمان انسان کو سہارا دیتا ہےلیکن اب جو یہاں پر بات ہے وہ مشکلات کی مقدار کے لحاظ سے نہیں بلکہ ان مصائب و مشکلات کی وجہ سے انسان پر جو ذہنی اور فکری دباؤ بنتا ہےاس اعتبار سے ہے کہ ایمان ایسے موقع پر بھی انسان کو بچا لیتا ہے۔
- ایمان کا ایک اور اثر یہ ہے کہ ایمان انسان کے لیے زندگی کا میدان وسیع کر دیتا ہے اور یہ انسان کو اندرونی خوشی کےمرکز کی جانب متوجہ کردیتاہے،بے ایمانی کے برخلاف جس کے بارے میں ارشاد ہے: ﴿وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ﴾([4])
- ایمان کا ایک دوسرا اثر، دل کی روشنی ہے، مؤمن دنیا کو زیادہ واضح طور پر دیکھتا ہے۔
- ایمان کے آثار میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان حق و حقیقت سے مایوس نہیں ہوتا اور امیدوار رہتا ہے، مؤمن جانتا ہے کہ حق فاتح ہے،اور صحیح اور غلط کے لئے جدوجہد کرنا ایک ہی چیز نہیں ہے اور ایک ہی نتیجہ نہیں دیتا؛ اگر انسان سیدھے راستے اور حق کی راہ پر چلتا ہے تو ایک قوت ایسی ہے جو اس کی تصدیق و تائید کے لئے موجود ہے ۔﴿إِن تَنصُرُوا اللَّـهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ﴾([5])۔
- ایمان کا ایک اور اثر عالمی نظام کے بارے میں پرامید اور عالمی ماحول سے راضی اور ہماہنگ رہنا ہے۔
- ایمان کے آثار و برکات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مصلحت اور خواہش کے مابین کشمکش کی صورت میں کہ جب عقل مصلحت کا تقاضہ کرتی ہے اور خواہش اپنے رجحانات کی طرف جانا چاہتی ہے تو ایسی صورت میں ایمان عقل کا ساتھ دیتا ہے اور وہ عقل کا سب سے عمدہ تصدیق کنندہ اوراسے تقویت بخشنے والا ہے ...
- ایک دوسرے سے محبت اور احسان کا برتاؤ،تعلیمات،نصحتیں اور بے لوث خدمتپیش کرنا ایمان کے اثرات میں شامل ہے خاص طور پر ایسے لوگوں کےساتھ محبت و احسان کا برتاؤ جو کمزور اور مایوس یا بوڑھے اور کم درآمد والے ہیں،اگرچہ لوگوں کا محبت کا بھوکا ہونا ان پر احسان کرنے سے جدا ہے،قرآن مجید نے انفاق کے باب پر بھرپور توجہ دلائی ہے اسی طرح روحانی تکلیف نہ پہچانے پر بھی تاکید کی ہے۔
- ایمان، معاشرے میں اتحاد و یگانگت اور وحدت کا ذریعہ ہے،یہ روحوں کو متحد کرنے کا وسیلہ ہے کہ«ایمان،خدا کے شیروں کی روح کو متحد کرتا ہے»۔
- ایمان سے،ذہنی سکون ملتا ہے ، دل و جان کو حرارت ملتی ہے، اورجب ایمان کی طاقت سے لوگ انسان کے مجذوب ہوتے ہیں تو روحانی خوشی محسوس ہوتی ہے، صرف ایک قابل عبادت ذات تک ہی انسان محدود رہتا ہے کہ جو ثابت،ابدی اور جاوید اور محبوب ہے کہ جس سے وابستہ ہوکر انسان خود کو فنا اور نابود ہونے سے بچالیتا ہے۔
- ایمان سے،معاشرے کے بارے میں احساس ذمہ داری اور وابستگی پیدا ہوتی ہےکہ جو آج خصوصی توجہات کا مرکز ہے۔
- ایمان سے،بحرانی حالات میں نمٹنے کی طاقت میسّر آتی ہے اور مستقل کوششوں اور مزاحمت میں سہارا ملتا ہے۔
- ایمان سے،آج کی نسل کے ذہنوں میں پائے جانے والے اقدارو اصول کے بارے میں شکوک شبہات دور ہوتے ہیں اورزندگی کے اقدار و اصول کو پامال کرنے والی ذہنیت(نہلزم([6])) سے نجات ملتی ہے اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے الجھنوں کی روک تھام ہوتی ہےکہ جو آج کی نسل میں پائی جاتی ہے۔([7])
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع
([1]) آشنائی با قرآن (10 ـ 14 )،مجموعہ آثار شہید مطہری، ج28 ،ص۶۰۱۔
([2]) یاداشتہائے شہيد مطہری، ج ۲۲،ص ۸۹۰۔
([3]) بقرہ(۲): ۱۵۶۔
[4] .طہ(۲۰): ۱۲۴۔اور جو میرے ذکر سے اعراض کرے گا اس کے لئے زندگی کی تنگی بھی ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا بھی محشور کریں گے۔
([5]) محمد(۴۷): ۷۔ایمان والو اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم بنادے گا۔
([6]) مذہب اور اخلاقی اصول سے روگردانی کرنے والا۔
([7]) یاداشتہائے شہيد مطہری، ج ۱،ص ۴۷۱۔
Add new comment