سوره مریم قرآن کی 19ویں اور مکی سورتوں میں سے ہے اور 16ویں پارے میں واقع ہے اس سورے میں حضرت مریم کی داستان نقل ہوئی ہے اسی مناسبت سے اس کا نام "سوره مریم" رکھا گیا ہے اس سورت کا اصلی پیغام بشارت اور انتباہ ہے جسے حضرت زکریا، حضرت یحیی، حضرت ابراہیم، حضرت موسی اور حضرت عیسی کی داستان کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے قیامت اور اس کی کیفیت، خدا کے صاحب اولاد ہونے کی نفی اور شفاعت سے مربوط مسائل اس سورے میں ذکر ہونے والے دیگر موضوعات ہیں۔
19۔سوره مریم کا مختصر جائزه:سوره مریم قرآن کی 19ویں اور مکی سورتوں میں سے ہے اور 16ویں پارے میں واقع ہے اس سورے میں حضرت مریم کی داستان نقل ہوئی ہے اسی مناسبت سے اس کا نام "سوره مریم" رکھا گیا ہے اس سورت کا اصلی پیغام بشارت اور انتباہ ہے جسے حضرت زکریا، حضرت یحیی، حضرت ابراہیم، حضرت موسی اور حضرت عیسی کی داستان کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے قیامت اور اس کی کیفیت، خدا کے صاحب اولاد ہونے کی نفی اور شفاعت سے مربوط مسائل اس سورے میں ذکر ہونے والے دیگر موضوعات ہیں،سوره مریم کی آیت نمیر 96 اس کی مشہور آیات میں سے ہے جو آیت ود کے نام سے جانا جاتا ہے سوره مریم کی تلاوت پر مداومت انسان کو اپنی جان، مال اور اولاد سے بے نیاز قرار دیتا ہے۔
مضامین
علامہ طباطبائی تفسیر المیزان میں فرماتے ہیں کہ اس سوره کا اصلی مقصد انبیاء کی داستانوں کے ضمن میں بشارت و انذار دینا ہے[1]،تفسیر نمونہ کے مطابق سوره مریم کے مضامین کو درج ذیل تین حصوں میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے۔
اس سورت کا عمدہ حصہ حضرت زکریا، حضرت مریم، حضرت عیسی، حضرت یحیی، حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل، حضرت ادریس اور بعض دیگر انبیاء علیہم السلام کی داستانوں کا بیان ہے؛ قیامت اور اس کی کیفیت سے مربوط مسائل، مجرمین کا انجام اور پرہیزگاروں کو دیا جانے والا ثواب وغیرہ کے علاوہ مواعظ و نصایح بھی اس حصے میں شامل ہیں؛قرآن، خدا کا اولاد سے بے نیاز ہونا اور شفاعت مربوط مسائل کا مجموعاً جو انسان کو ایمان، نیکی اور تقوا کی طرف مائل کرنے میں مؤثر کردار ادا کرتے ہیں[2]۔
فضیلت اور خواص
امام صادق(ع)سے نقل ہوا ہے کہ۔ "جو شخص سورہ مریم کی تلاوت پر مداومت کرے گا یہ شخص اس دنیا سے نہیں جائے گا مگر یہ کہ خدا اس سورت کی برکت سے اس شخص کو اس کے جان، مال اور اولاد سے بے نیاز کر دے گا"[3]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع
[1] طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ش، ج۱۴، ص۶۔
[2] مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۳، ص۳۔
[3] مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۳، ص۴۔
Add new comment