خلاصہ: تاریخ میں بڑے بڑوں کے خطبے ملتے ہیں لیکن ایک پاکدامن خاتون کہ جس نے نجس دربار میں بھائی، بھتیجے، بیٹوں کے قاتلوں کے درمیان کھڑے ہو کر ایک ایسا خطبہ ارشاد فرمایا کہ نہ ان سے پہلے کسی نے ایسے ماحول میں خطبہ دیا اور نہ ہی کوئی تا قیامت دے گا۔
حضرت زینب (سلام اللہ علیھا) واقعۂ کربلا کے بعد جب وہ غمناک سفر کرتے ہوئے یزید کے دربار میں پہنچیں تو آپ کی نظر اپنے بھائی سید الشھداء امام حسین (علیہ السلام) کے کٹے سر پر پڑی تو آپ نے ایسی دردناک آواز میں فریاد کی کہ جس سے دربار میں کھڑے لوگ سہم گئے۔
یا حسیناہ ! یا حبیب رسول اللہ ! یا بن مکه و منی ، یابن فاطمه الزہراء سیده النساء العالمین ، یابن بنت المصطفی۔
اے حسین ، اے محبوب رسول خدا ، اے مکہ و منی کے بیٹے ! اے فاطمہ زہرا سیده نساء العالمین کے بیٹے ، اے محمد مصطفی کی بیٹی کے بیٹے!
راوی نے اس واقعہ کو نقل کرتے ہوئے کہا: خدا کی قسم ! حضرت زینب (سلام اللہ علیھا) کی اس آواز سے درباری رونے لگے اور جب سب درباریوں نے رونا شروع کر دیا تو یزید ملعون خاموش ہو گیا اور خاموش بھی ایسا ہوا کہ جیسے کوئی بت رکھا گیا ہو۔
کچھ ہی دیر کے بعد یزید نے امام حسین (علیہ السلام) کے لبوں اور دانتوں پر چھڑی مارنا شروع کر دی۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے صحابی ابوبرزہ اسلمی بھی وہاں موجود تھے انہوں نے یزید کو مخاطب کرکے کہا: اے یزید! تو نواسہ رسول اور فرزند زہراء کی اس طرح بے حرمتی کر رہا ہے، تمہیں معلوم ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم) حسنین (علیہما السلام) کے لبوں اور داندان مبارک کو بوسہ دیتے تھے اور فرماتے تھے:
«اَنْتُما سَیِّدا شَبابِ اهْلِ الْجَنَّهِ، فَقَتَلَ اللهُ قاتِلَکُما وَلَعَنَهُ، وَاَعَدَّلَهُ جَهَنَّمَ َوساءَتْ مَصیراً»
تم دونوں جوانان جنت کے سردار ہو، جو تمہیں قتل کرے ، خدا اس کو قتل کرے اور اس پر لعنت کرے اور اس کے لیے جہنم کو آمادہ کرے اور وہ بہت خراب جگہ ہے۔
جیسے ہی یزید نے یہ بات سنی تو وہ غصہ سے چیخنے لگا اور حکم دیا کہ صحابی رسول (صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم) کو باہر نکال دو۔
یزید ملعون اپنے غرور میں مست تھا اور سمجھ رہا تھا کہ کربلا میں کامیاب ہوگیا ہے اوران اشعار کو بلند آواز سے پڑھ رہا تھا جو اس کے اور آل امیہ کے دین مبین اسلام پر ایمان نہ رکھنے کی زندہ دلیل ہیں (1):
لَیْتَ اَشْیاخی بِبَدْر شَهِدُوا جَزِعَ الْخَزْرَجُ مِنْ وَقْعِ الاَْسَلْ
فَاَهَلُّوا وَ اسْتَهَلُّوا فَرَحاً ثُمَّ قالُوا یایَزیدُ لاتَشَلْ
لَسْتُ مِنْ خِنْدَفَ اِنْ لَمْ اَنْتَقِمْ مِنْ بَنی اَحْمَدَ، ما کـانَ فَعَلْ
کاش کہ میرے وہ بزرگ جو جنگ بدر میں قتل کردیے گئے تھے وہ آج ہوتے اور دیکھتے کہ کس طرح قبیلہ خزرج نیزہ مارنے کے بجایے گریہ وزاری میں مشغول ہے۔ اس وقت وہ خوشی میں آواز دیتے اور کہتے: اے یزید ! تیرے ہاتھ شل نہ ہوں!
میں ""خندف"" (2) کی اولاد میں سے نہیں ہوں جو احمد رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اولاد سے انتقام نہ لوں۔
اس وقت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی شیر دل بیٹی حضرت زینب (سلام اللہ علیھا) کھڑی ہوئیں اور ایک تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
«اَلْحَمْدُللهِِ رَبِّ الْعالَمینَ، وَصَلَّى اللهُ عَلى رَسُولِهِ وَآلِهِ اجْمَعینَ، صَدَقَ اللهُ کَذلِکَ یَقُولُ: (ثُمَّ کَانَ عَاقِبَهَ الَّذِینَ اَسَاءُوا السُّواَى اَنْ کَذَّبُوا بِآیَاتِ اللهِ وَکَانُوا بِهَا یَسْتَهْزِیُون).(3)
اَظَنَنْتَ یا یَزِیدُ حَیْثُ اَخَذْتَ عَلَیْنا اَقْطارَ الاَْرْضِ وَآفاقَ السَّماءِ، فَاَصْبَحْنا نُساقُ کَما تسُاقُ الاُسارى اَنَّ بِنا عَلَى اللهِ هَواناً، وَبِکَ عَلَیْهِ کَرامَهً وَاَنَّ ذلِکَ لِعِظَمِ خَطَرِکَ عِنْدَهُ، فَشَمَخْتَ بِاَنْفِکَ، وَنَظَرْتَ فِی عِطْفِکَ جَذْلانَ مَسْرُوراً حِینَ رَاَیْتَ الدُّنْیا لَکَ مُسْتَوْثِقَهٌ وَالاُْمُورَ مُتَّسِقَهٌ وَحِینَ صَفا لَکَ مُلْکُنا وَسُلْطانُنا، فَمَهْلاً مَهْلاً، اَنَسِیتَ قَوْلَ اللهِ عَزَّوَجَلَّ: (وَ لاَ یَحْسَبَنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا اَنَّمَا نُمْلِى لَهُمْ خَیْرٌ لاَِّنْفُسِهِمْ اِنَّمَا نُمْلِی لَهُمْ لِیَزْدَادُوا اِثْماً وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِینٌ).(4)
سب تعریفیں اس خدا کے لیے ہیں جو کائنات کا پروردگار ہے اور خدا کی رحمتیں نازل ہوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اور ان کی پاکیزہ عترت و اہل بیت(علیهم السلام) پر۔
اما بعد! بالاخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنے دامن حیات کو برائیوں کی سیاہی سے داغدار کر کے اپنے خدا کی آیات کی تکذیب کی اور آیات پروردگار کا مذاق اڑایا ۔ اے یزید!تو کیا سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے تنگ کر دیے ہیں اور آلِ رسول کو رسیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو خدا کی بارگاہ میں سرفراز ہوا اور ہم رسوا ہوئے ہیں؟ کیا تیرے خیال میں ہم مظلوم ہو کر ذلیل ہو گئے اور تو ظالم بن کر سر بلند ہوا ہے؟ تو کیا سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کر کے خدا کی بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے۔ اور خلافت کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی اور سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور ہوش کی سانس لے۔ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ حق کا انکار کرنے والے یہ خیال نہ کریں کہ ہم نے انہیں جو مہلت دی ہے وہ ان کے لیے بہتر ہے۔ بلکہ ہم نے انہیں اس لیے ڈھیل دے رکھی ہے کہ جی بھر کر اپنے گناہوں میں اضافہ کر لیں اور ان کے لیے خوفناک عذاب معین کیا جا چکا ہے۔
اس کے بعد فرمایا:
«اَ مِنَ الْعَدْلِ یَابْنَ الطُّلَقاءِ! تَخْدِیرُکَ حَرایِرَکَ وَ اِمایَکَ، وَ سَوْقُکَ بَناتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وَ سَلَّم سَبایا، قَدْ هَتَکْتَ سُتُورَهُنَّ، وَ اَبْدَیْتَ وُجُوهَهُنَّ، تَحْدُو بِهِنَّ الاَْعداءُ مِنْ بَلد اِلى بَلد، یَسْتَشْرِفُهُنَّ اَهْلُ الْمَناهِلِ وَ الْمَناقِلِ، وَ یَتَصَفَّحُ وُجُوهَهُنَّ الْقَرِیبُ وَ الْبَعِیدُ، وَ الدَّنِیُّ وَ الشَّرِیفُ، لَیْسَ مَعَهُنَّ مِنْ رِجالِهِنَّ وَلِیُّ، وَ لا مِنْ حُماتِهِنَّ حَمِیٌّ، وَ کَیْفَ یُرْتَجى مُراقَبَهُ مَنْ لَفَظَ فُوهُ اَکْبادَ الاَْزْکِیاءِ، وَ نَبَتَ لَحْمُهُ مِنْ دِماءِ الشُّهَداءِ، وَ کَیْفَ یَسْتَبْطِاُ فِی بُغْضِنا اَهْلَ الْبَیْتِ مَنْ نَظَرَ اِلَیْنا بِالشَّنَفِ وَ الشَّنَآنِ وَ الاِْحَنِ وَ الاَْضْغانِ، ثُمَّ تَقُولُ غَیْرَ مُتَّاَثِّم وَ لا مُسْتَعْظِم: لاََهَلُّوا و اسْتَهَلُّوا فَرَحاً *** ثُمَّ قالُوا یا یَزیدُ لا تَشَلْ مُنْتَحِیاً عَلى ثَنایا اَبِی عَبْدِاللهِ سَیِّدِ شَبابِ اَهْلِ الجَنَّهِ، تَنْکُتُها بِمِخْصَرَتِکَ، وَ کَیْفَ لا تَقُولُ ذلِکَ وَ قَدْ نَکَاْتَ الْقَرْحَهَ، وَ اسْتَاْصَلْتَ الشَّاْفَهَ بِاِراقَتِکَ دِماءَ ذُرّیَهِ مُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، وَ نُجُومِ الاَْرْضِ مِنْ آلِ عَبْدِالمُطَّلِبِ، وَ تَهْتِفُ بِاَشْیاخِکَ، زَعَمْتَ اَنَّکَ تُنادِیهِمْ، فَلَتَرِدَنَّ وَ شِیکاً مَوْرِدَهُمْ وَ لَتَوَدَّنَّ اَنَّکَ شَلَلْتَ وَ بَکِمْتَ، وَ لَمْ تَکُنْ قُلْتَ ما قُلْتَ وَ فَعَلْتَ ما فَعَلْتَ»۔
اے طلقاءکے بیٹے (5) کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کر کے پردے میں بٹھا رکھا ہے جبکہ رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کا مرتکب ہوا۔ تیرے حکم پر اشقیاءنے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا، اہل بیت رسول کی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آیے۔ اورلوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے سب لوگ ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں۔ ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بیبیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں۔ آج رسول زادیوں کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں جو اِن کی سرپرستی کریں۔ آج آلِ محمد کا معین و مددگار کوئی نہیں ہے۔
اس شخص سے بھلائی کی کیا توقع ہو سکتی ہے جس کی ماں نے پاکیزہ لوگوں کے جگر کو چبایا ہو۔ اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے جس نے شہیدوں کا خون پی رکها ہو۔ وہ شخص کس طرح ہم اہل بیت(علیهم السلام) پر مظالم ڈھانے میں کمی کر سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کینے سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ ہمیں دیکھتا ہے۔
اے یزید! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ آج اگر میرے اجداد موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں۔
اے یزید! کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علی (علیه السلام) کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی بے ادبی کر رہا ہے۔
اے یزید، تو کیوں خوش نہ ہو اور فخر و مباہات کے قصیدے نہ پڑھے کیونکہ تو نے اپنے ظلم و استبداد کے ذریعے فرزند رسول خدا اور عبدالمطلب کے خاندانی ستاروں کا خون بہا کر ہمارے دلوں کے زخموں کو گہرا کر دیا ہے اور شجرہ طیبہ کی جڑیں کاٹنے کے گھناونے جرم کا مرتکب ہوا ہے۔ تو نے اولاد رسول کے خون میں اپنے ہاتھ رنگین کیے ہیں۔
تو نے عبدالمطلب کے خاندان کے ان نوجوانوں کو تہہ تیغ کیا ہے جن کی عظمت و کردار کے درخشندہ ستارے زمین کے گوشے گوشے کو منور کیے ہوئے ہیں۔
آج تو آلِ رسول کو قتل کر کے اپنے بد نہاد اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منہمک ہے۔ تو سمجھتا هے که وه تیری آواز سن رهے هیں؟! عنقریب تو بھی اپنے ان کافر بزرگوں کے ساتھ جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے باز رہتا۔
اس کے بعد حضرت زینب (سلام اللہ علیھا)نے آسمان کی طرف منہ کر کے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا!
«اَللّهُمَّ خُذْ بِحَقِّنا، وَ انْتَقِمْ مِنْ ظالِمِنا، وَ اَحْلِلْ غَضَبَکَ بِمَنْ سَفَکَ دِماءَنا، وَ قَتَلَ حُماتَنا، فَوَاللهِ ما فَرَیْتَ اِلاّ جِلْدَکَ، وَلا حَزَزْتَ اِلاّ لَحْمَکَ، وَ لَتَرِدَنَّ عَلى رَسُولِ اللهِ بِما تَحَمَّلْتَ مِنْ سَفْکِ دِماءِ ذُرِّیَّتِهِ، وَ انْتَهَکْتَ مِنْ حُرْمَتِهِ فِی عَتْرَتِهِ وَ لُحْمَتِهِ، حَیْثُ یَجْمَعُ اللهُ شَمْلَهُمْ، وَ یَلُمُّ شَعْثَهُمْ، وَ یَاْخُذُ بِحَقِّهِمْ (وَ لاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِى سَبِیلِ اللهِ اَمْوَاتاً بَلْ اَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُونَ).(6) وَ حَسْبُکَ بِاللهِ حاکِماً، وَ بِمُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وَ سَلَّمَ خَصِیماً، وَ بِجَبْرَیِیلَ ظَهِیراً، وَ سَیَعْلَمُ مَنْ سَوّى لَکَ وَ مَکَّنَکَ مِنْ رِقابِ المُسْلِمِینَ، بِیْسَ لِلظّالِمِینَ بَدَلاً، وَ اَیُّکُمْ شَرٌّ مَکاناً، وَ اَضْعَفُ جُنْداً».
اے ہمارے پروردگار، تو ہمارا حق ان ظالموں سے ہمیں دلا دے اور تو ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے۔ اے پردگار تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے۔ اور اے خدا تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کر دیا۔ اے یزید! تو نے جو ظلم کیا ہے یه اپنے ساتھ ظلم کیا ہے۔ تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کی ہے۔ اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹا ہے۔ تو رسولِ خدا کے سامنے ایک مجرم کی صورت میں لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناونے جرم کا سوال ہوگا کہ تو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو کیوں دربدر پھرایا اور رسول کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم کیوں کیا۔
اے یزید! یاد رکھ کہ خدا، آلِ رسول کا تجھ سے انتقام لے کر ان مظلوموں کا حق انہیں دلائے گا۔ اور انہیں امن و سکون کی نعمت سے مالامال کر دے گا۔ خدا کا فرمان ہے کہ تم گمان نہ کرو کہ جو لوگ راہِ خدا میں مارے گیے وہ مر چکے ہیں۔ بلکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پا گیے اور بارگاہِ الٰہی سے روزی پا رہے ہیں۔
اے یزید ! یاد رکھ کہ تو نے جو ظلم آلِ محمد پر ڈھائے ہیں اس پر رسول خدا، عدالتِ الٰہی میں تیرے خلاف شکایت کریں گے۔ اور جبرائیلِ امین آلِ رسول کی گواہی دیں گے۔ پھر خدا اپنے عدل و انصاف کے ذریعه تجھے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ اور یہی بات تیرے برے انجام کے لیے کافی ہے۔
عنقریب وہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے جنہوں نے تیرے لیے ظلم و استبداد کی بنیادیں مضبوط کیں اور تیری آمرانہ سلطنت کی بساط بچھا کر تجھے اہل اسلام پر مسلط کر دیا۔ ان لوگوں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ ستمگروں کا انجام برا ہوتا ہے اور کس کے ساتھی ناتوانی کا شکار ہیں۔
اس کے بعد فرمایا :
«وَ لَیِنْ جَرَّتْ عَلَیَّ الدَّواهِی مُخاطَبَتَکَ، اِنِّی لاََسْتَصْغِرُ قَدْرَکَ، وَ اَسْتَعْظِمُ تَقْرِیعَکَ، وَ اَسْتَکْثِرُ تَوْبِیخَکَ، لکِنَّ العُیُونَ عَبْرى، وَ الصُّدُورَ حَرّى، اَلا فَالْعَجَبُ کُلُّ الْعَجَبِ لِقَتْلِ حِزْبِ اللهِ النُّجَباءِ بِحِزْبِ الشَّیْطانِ الطُّلَقاءِ، فَهذِهِ الاَْیْدِی تَنْطِفُ مِنْ دِمایِنا، وَ الاَفْواهُ تَتَحَلَّبُ مِنْ لُحُومِنا، وَ تِلْکَ الجُثَثُ الطَّواهِرُ الزَّواکِی تَنْتابُها العَواسِلُ، وَ تُعَفِّرُها اُمَّهاتُ الْفَراعِلِ.
وَ لَیِنِ اتَّخَذْتَنا مَغْنَماً لَتَجِدَ بِنا وَ شِیکاً مَغْرَماً حِیْنَ لا تَجِدُ الاّ ما قَدَّمَتْ یَداکَ، وَ ما رَبُّکَ بِظَلاَّم لِلْعَبِیدِ، وَ اِلَى اللهِ الْمُشْتَکى، وَ عَلَیْهِ الْمُعَوَّلُ، فَکِدْ کَیْدَکَ، وَ اسْعَ سَعْیَکَ، وَ ناصِبْ جُهْدَکَ، فَوَاللهِ لا تَمْحُو ذِکْرَنا، وَ لا تُمِیتُ وَحْیَنا، وَ لا تُدْرِکُ اَمَدَنا، وَ لا تَرْحَضُ عَنْکَ عارَها، وَ هَلْ رَایُکَ اِلاّ فَنَدٌ، وَ اَیّامُکَ اِلاّ عَدَدٌ، وَ جَمْعُکَ اِلاّ بَدَدٌ؟ یَوْمَ یُنادِی الْمُنادِی: اَلا لَعْنَهُ اللهِ عَلَى الظّالِمِینَ.
وَ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعالَمِینَ، اَلَّذِی خَتَمَ لاَِوَّلِنا بِالسَّعادَهِ وَ الْمَغْفِرَهِ، وَ لاِخِرِنا بِالشَّهادَهِ وَ الرَّحْمَهِ. وَ نَسْاَلُ اللهَ اَنْ یُکْمِلَ لَهُمُ الثَّوابَ، وَ یُوجِبَ لَهُمُ الْمَزیدَ، وَ یُحْسِنَ عَلَیْنَا الْخِلافَهَ، اِنَّهُ رَحیمٌ وَدُودٌ، وَ حَسْبُنَا اللهُ وَ نِعْمَ الْوَکیلُ».
اے یزید! یہ گردش ایام اور حوادث روزگار کا اثر ہے کہ مجھے تجھ جیسے بدنہاد سے ہمکلام ہونا پڑا ہے اور میں تجھ جیسے ظالم و ستمگر سے گفتگو کر رہی ہوں لیکن یاد رکھ میری نظر میں تو ایک نہایت پست اور گھٹیا شخص ہے جس سے کلام کرنا بھی شریفوں کی توہین ہے۔ میری اس جرایت سخن پر تو مجھے اپنے ستم کا نشانہ ہی کیوں نہ بنا دے لیکن میں اسے ایک عظیم امتحان اور آزمایش سمجھتے ہوئے صبر و استقامت اختیار کروں گی اور تیری بد کلامی و بدسلوکی میرے عزم و استقامت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ اے یزید! آج ہماری آنکھیں اشکبار ہیں اور سینوں میں آتش غم کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔
افسوس تو اس بات پر ہے کہ شیطان کے ہمنوا اور بدنام لوگوں نے رحمان کے سپاہیوں اور پاکباز لوگوں کو تہہ تیغ کرڈالا ہے۔ اور ابھی تک اس شیطانی ٹولے کے ہاتھوں سے ہمارے پاک خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔ ان کے ناپاک دہن ہمارا گوشت چبانے میں مصروف ہیں اور صحرا کے بھیڑئے ان پاکباز شہیدوں کی مظلوم لاشوں کے ارد گرد گھوم رہے ہیں اور جنگل کے نجس درندے ان پاکیزہ جسموں کی بے حرمتی کر رہے ہیں۔
اے یزید! اگر آج تو ہماری مظلومیت پر خوش ہو رہا ہے اور اسے اپنے دل کی تسکین کا باعث سمجھ رہا ہے تو یاد رکھ کہ جب قیامت کے دن اپنی بد کرداری کی سزا پائے گا تو اس کا برداشت کرنا تیرے بس سے باہر ہو گا۔ خدا عادل ہے اور وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ ہم اپنی مظلومیت اپنے خدا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اور ہر حال میں اسی کی عنایات اور عدل و انصاف پر ہمارا بھروسہ ہے۔
اے یزید! تو جتنا چاہے مکر و فریب کر لے اور بھر پور کوشش کر کے دیکھ لے مگر تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ تو نہ تو ہماری یاد لوگوں کے دلوں سے مٹا سکتا ہے اور نہ ہی وحی الٰہی کے پاکیزہ آثار محو کر سکتا ہے۔ تو یہ خام خیال اپنے دل سے نکال دے کہ ظاہر سازی کے ذریعے ہماری شان و منزلت کو پا لے گا۔ تو نے جس گھناونے جرم کا ارتکاب کیا ہے اس کا بدنما داغ اپنے دامن سے نہیں دھو پائے گا۔ تیرا نظریہ نہایت کمزور اور گھٹیا ہے۔ تری حکومت میں گنتی کے چند دن باقی ہیں۔ تیرے سب ساتھی تیرا ساتھ چھوڑ جائیں گے۔ تیرے پاس اس دن کی حسرت و پریشانی کے سوا کچھ بھی نہیں بچے گا۔ جب منادی ندا کرے گا کہ ظالم و ستمگر لوگوں کے لیے خدا کی لعنت ہے۔
ہم خدائے قدوس کی بارگاہ میں سپاس گزار ہیں کہ ہمارے خاندان کی پہلی فرد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سعادت و مغفرت سے بہرہ مند فرمایا اور امام حسین علیہ السلام کو شہادت و رحمت کی نعمتوں سے نوازا۔ ہم بارگاہِ ایزدی میں دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے شہیدوں کے ثواب و اجر میں اضافہ و تکمیل فرمائے اور ہم باقی سب افراد کو اپنی عنایتوں سے نوازے، بے شک خدا ہی رحم و رحمت کرنے والا اور حقیقی معنوں میں مہربان ہے۔ خدا کی عنایتوں کے سوا ہمیں کچھ مطلوب نہیں اور ہمیں صرف اور صرف اسی کی ذات پر بھروسہ ہے اس لیے کہ اس سے بہتر کویی سہارا نہیں ہے” (7)۔
یہ خطبہ تاریخ اسلام کا بہت ہی فصیح اور طاقتور خطبہ ہے، گویا اس خطبہ میں علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی بلند و بالا روح اور بے نظیر شجاعت، ان کی شیر دل بیٹی زینب کبری (سلام اللہ علیھا) کی زبان پر جاری ہوئی ہے جو اسی زبان و لہجہ اور اسی منطق میں تقریر کی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔ ان اشعار کا دوسرا شعر ، رسول خدا کے دشمن عبداللہ بن زبعری کا ہے ، اس نے یہ اشعار جنگ احد میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اصحاب کے شہید ہونے کے بعد کہے تھے اور ان اشعار میں آرزو کی تھی کہ کاش جنگ بدر میں ہمارے قتل ہونے والے بزرگ ہوتے اور دیکھتے کہ قبیلہ خزرج (مدینہ کے مسلمان قبیلے ) کس طرح گریہ وزاری کررہے ہیں ۔ اس شعر سے استفادہ کرتے ہوئے باقی شعر خو د اس نے کہے ہیں ۔
2۔ خندف ، قریش کے مورث اعلی ہے جوخود یزید کا بھی دادا شمار ہوتا ہے ۔ (ر.ك: تاريخ طبرى، ج 1، ص 24ـ25.)۔
3۔ روم، آيه 10.
4۔ آل عمران، آيه 178.
5۔ فتح مکہ کی طرف اشارہ ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ابوسفیان ، معاویہ ، قریش کے بزرگ افراد اور اپنے دشمنوں کو بخش دیا تھا اور فرمایا تھا : اذھبوا فانتم الطلقاء (جائو تم آزاد ہو ) ۔ (رجوع کریں : بحارالانوار، ج 21، ص 106 و تاريخ طبرى، ج 2، ص 337) .
6۔ آل عمران، آيه 169.
7۔ مقتل الحسين مقرّم، ص 357-359 ; بحارالانوار، ج 45، ص 132 ـ 135 و احتجاج، ج 2، ص 122ـ130.
Add new comment