مشکلات اور شرور کے بہت سے فوائد بھی بیان کئے گئے ہیں، جس میں سے ایک یہ ہے کہ دنیا کی خوبصورتی سوائے اسکی برائی سے مقائسہ کئے میسر نہیں ہوسکتی: «اگر سبھی لوگ خوبصورت ہوتے تو کوئی بھی خوبصورت نہ ہوتا »[1]۔
اسی طرح شر کو انسان کے کمالات اور بلندیوں تک پہنچنے کا وسیلہ سمجھا جا سکتا ہے [2]،عیسائی متکلم ايرنائوس شرور کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے اسی نکتہ پر زور دیتا نظر آتا ہے، جان ہيک – کہ جو خود اسی نظریہ کے مدافعین میں سے ہے – اس سلسلہ میں بیان کرتا ہے: ايرنائوسی نظریۂ عدل کی بنیادوں پر،خدا کا ارادہ زمین پر جنت بنانا نہیں تھا کہ جس کے ساکنیین زیادہ سے زیادہ آرام و آسائش سے بہرہ مند ہوتے رہیں اور کم سے کم رنج و مصیبت جھیلیں بلکہ دنیا «روح کی پرورش» کی جگہ ہےانسان سازی کی منزل ہےکہ جس میں رہنے والے مختار موجودات اپنی مشترکہ زندگی میں پیش آنے والے اپنے فریضہ اور چیلینجز سے روبرو ہونے کے بعد«فرزندانِ خدا » اور « حیات ابدی کے وارث» میں بدل جائیں[3]
اسلامی تعلیمات بھی ناگوار حادثات کو انسانی ارتقاء کاذریعہ سمجھتی ہے، اور ان حوادث کے مدّ مقابل صبر کو،آخرت کے ثواب کا سبب مانتی ہے؛جیسا کہ بیان کیا گیا ہے: « جو بھی اس بزم میں زیادہ مقرب ہے –اسے آزمائشوں کا جام بھی بڑا ملتا ہے» یہ شعر روایت کے مضامین سے ماخوذ ہے بطور نمونہ جس میں ذکر ہے: «انَّ اشدَّ الناس بلاءً الانبياء، ثمّ الذين يلونهم، ثمّ الامثلُ فالامثل»۔ اور «مَن صحّ ايمانه و حسُنَ عملُه، اشتدّ بلاؤه»[4]۔
شر، گنہگاروں کے لیے تنبیہ
قرآن کریم ذاتی اور سماجی آفتوں کو لوگوں کے خود کے گناہوں سے قریبی تعلقات کی صورت میں دیکھتا ہے[5]،بطور نمونہ ارشادہوتا ہے: «ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ»۔[6]، اسی طرح: «وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ»۔[7]،روایات میں بھی اس طرح کے مضامین کثرت سے موجود ہیں؛ جیسا کہ مولوی انہیں روایات کے پس منظر میں کچھ اس طرح سے اشعار پیش کرتا ہے: «ابر بر نايد پي منع زکات – وز زنا افتد وبا اندر جهات»۔[8]، اسی طرح معصومین علیہم السلام کے فرامین کے مطابق، رزق و روزی سے محرومی اورمجموعی طور پر الٰہی نعمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھنا، نماز شب پڑھنے کی توفیق نہ ملنا اسکے علاوہ بہت ساری بیماریوں میں گرفتار ہونا،یہ ساری چیزیں خود انسانوں کے گناہوں کا نتیجہ ہیں۔
عہد عتیق کی کی کتابوں کی بنیاد پر حضرت ایوبؑ کے معاصرین انکی پریشانیوں کو کچھ اس طرح دیکھتے ہوئے اسکا جائزہ لیتے ہیں اور انہیں تسلّی دیتے نظر آتے ہیں: «تھوڑا سوچو غور و فکر کروکیا اب تک کسی اچھے بھلے اور بے گناہ انسان کو دیکھا ہے کہ وہ ہلاک ہو ا ہو ؟ ۔۔۔ جو لوگ خدا سے روٹھے رہتے ہیں یا اسے نہیں مانتے وہ ظاہر میں تو کامیاب و کامران نظر آتے ہیں لیکن ان پر اچانک آفت آ تی ہے۔ ۔۔۔ وہ شخص مبارک باد کا مستحق ہے جسے خدا متنبہ اور غفلت کی نیند سے جگاتے ہوئے سزا دیتا ہے، اس لیے اب کہ جب وہ تمہیں سزا دے رہا ہے تو رنجیدہ خاطر نہ ہو»[9]۔
مسلم مفکرین – مذکورہ نقطۂ نظر کے سلسلہ میں– یہ مانتے ہیں کہ معنوی عوامل کی تاثیر گذاری کو ماننے کا مطلب، حوادث و واقعات کے مادّی علل و اسباب کا انکار نہیں ہے کیونکہ ان دونوں میں سے ایک علت دوسری علت کے طول میں ہے[10]،جبکہ دوسری جانب، کچھ مصنفین شرور کی اس طرح سے توجیہ بیان کرنے کو صحیح نہیں مانتے اور انہوں نے اس پر تنقید کی ہے: «تنبیہ کا یہ اصول ۔۔۔ کس طرح سے ایک ایسے شر اور برائی کی توجیہ پیش کرسکتا ہے کہ جو پوری طرح سے بے مطلب اور بے ہودہ نظر آتاہو (جیسے کسی بے گناہ معصوم سے بچے کی ناگہانی موت،یا کسی گاؤں کے لوگوں کی اتفاقی طور پر بہت ہی دردناک موت) ؟»[11]۔
…………
منابع و ماخذ:
[1]۔ مرتضي مطهري، مجموعه آثار، ج1 (عدل الهي)، ص167۔ اسی بارے میں، رجوع فرمائیں: فرڈریک کاپلسٹن، تاريخ فلسفه، ج1، ترجمه سيدجلالالدين مجتبوي، ص450؛ مائکل پیٹرسن اور دوسرے، گزشتہ حوالہ، ص196۔
[2]۔ ويلیم جيمزکے مطابق: < اگردنیا میں کوئی اهريمن نہ ہو ،تو دنیا کی موجودہ قدر و قیمت کچھ نہیں بچے گی ۔ اگر دنيا میں کوئی شيطان اور مخالف ہی نہ ہو کہ جسکی گردن پر ہم پاؤں دھر کے اوپر اٹھ سکیں ،تو اس دنیا کی کونسی چیزجاذب اور پرکشش رہ جائے گی؟!> ويليم جيمز، دين و روان، ترجمه مهدي قائني، ص28۔
[3]۔ John H۔ Hick, Philosophy of Religion, pp 45 ـ 46۔
[4]۔ محمد بن يعقوب کليني، الکافي، ج2، ص252 (کتاب الايمان و الکفر، باب شدة ابتلاء المؤمن)۔
[5]۔ رجوع فرمائیں: محمدحسين طباطبائی، الميزان، ج2، ص180 ـ 185؛ ج6، ص38؛ ج8، ص195 ـ 199؛ ج16، ص195، 196؛ ج18، ص59، 60؛ ج20، ص30۔
[6]۔ روم (30)، 41۔
[7]۔ شوري (42)، 30۔
[8]۔ جلالالدين مولوي، مثنوي معنوي، دفتر اول، بيت 88۔ یہ شعر مندرجہ ذیل حدیث نبوی 1کی جانب اشارہ ہے: <ما ظهرت الفاحشة فيهم الا ظهر فيهم الطاعون؛ ۔۔۔ ولا منعوا الزکاة الا حبس الله عنهم المطر؛ برے کام [زنا] لوگوں کے درمیان رواج نہیں پاتا مگر یہ کہ اسکے سبب [بيمارئ] طاعون لوگوں کو اپنی چپیٹ میں لیلے ؛ ۔۔۔ اورزکات کی ادائگی نہیں کرتے, سوائے یہ کہ خدا انہیں بارش سے محروم کردیتا ہے ۔> تفسير القرطبي، ج19، ص253 (قابل ذکر ہے کہ عربی زبان میں, طاعون اور وباء کو مترادف کے طور پر استعمال میں لایا جاتا ہے)۔
[9]۔ عهد عتيق، ايوب، 4: 7؛ 5: 3، 17۔
[10]۔ محمدحسين طباطبائی، الميزان، ج2، ص183، 184؛ ج8، ص197، 198۔
[11]۔ مائکل پیٹرسن اور دوسرے، گزشتہ حوالہ، ص197۔
Add new comment