خلاصہ: اس مضمون میں توحید ربوبی پر دو دلائل بیان کیے جارہے ہیں۔
سورہ الحمد کی دوسری آیت "اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعالَمینَ" کے سلسلہ میں، ربّ ہونے کے لحاظ سے اللہ کی وحدانیت پر گفتگو کی جارہی ہے۔
قرآن کریم توحید ربوبی یعنی ربّ ہونے کے لحاظ سے اللہ کی وحدانیت کو دو دلائل کے ذریعے ثابت کرتا ہے:
پہلی دلیل: عقلی تجزیہ کی بنیاد پر، ربوبیت خلقت کی ایک قسم ہے اور اللہ کی خالقیت کو ماننا درحقیقت اللہ کی ربوبیت کو ہی ماننا ہے۔
اسی لیے قرآن کریم احسن طریقہ سے ربوبیت پر احتجاج کرنے کے لئے، مشرکین سے اللہ تعالیٰ کی خالقیت کے بارے میں اقرار لیتا ہے۔ مشرکین جو جزوی طور پر اللہ کی ربوبیت کے منکر تھے، کہتے تھے کہ اللہ ہمیں کچھ نہیں دیتا کہ ہم اس کی عبادت کریں اور اس کے سامنے ہماری کوئی ذمہ داری ہو، اور وہ بتوں کو جزوی ربّ سمجھتے تھے اور اپنے آپ کو صرف ان کے سامنے ذمہ دار جانتے تھے اور ان کی عبادت کرتے تھے۔
دوسری دلیل: خالقیت اور ربوبیت کے درمیان باہمی تعلق ہے، یعنی خالق ہی ربّ ہوسکتا ہے، جو ایک چیز کا خالق نہیں ہے تو وہ اس چیز کے وجود کے نظام کو نہیں جانتا اور اس کے پاس اس چیز کی تدبیر اور پرورش کرنے کی طاقت نہیں ہے، لہذا کائنات کا واحد خالق اس کا ربّ ہے۔
مشرکین اللہ کی خالقیت کو تسلیم کرتے تھے، قرآن کریم نے جدال احسن کے طریقے سے خالقیت کی بنیاد پر اللہ کی ربوبیت کو ثابت کیا ہے۔
توحید ربوبی کے ثابت ہونے سے توحید عبادی بھی ثابت ہوتی ہے۔ اگر اللہ کے سوا کائنات کا کوئی ربّ نہیں ہے تو اس کے سوا کوئی معبود بھی نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[ماخوذ از: تفسیر تسنیم، آیت اللہ عبداللہ جوادی آملی]
Add new comment