افطاری اور سحری روایات کی روشنی میں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: سحری کرنا بہتر ہے اور اسے ترک کرنا کیسا ہے؟ نیز افطاری نماز مغرب سے پہلے یا بعد میں ہونی چاہیے اور افطار کن چیزوں سے کیا جائے، اور چھوٹے بچوں کو روزہ رکھنے کی عادت کتنی عمر سے ڈلوائی جائے اور کیا ان کو پورا روزہ رکھوایا جائے۔ ان باتوں کو روایات کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔

افطاری اور سحری روایات کی روشنی میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ابوبصیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے اس شخص کی سحری کرنے کے بارے میں جو روزہ رکھنا چاہتا ہے، دریافت کیا کہ کیا ایسے شخص پر سحری کرنا واجب ہے؟

آپ نے فرمایا: اگر سحری نہ کرنا چاہے تو کوئی حرج نہیں لیکن ماہ رمضان میں بہتر ہے کہ سحری کرے، ہمیں پسند ہے کہ ماہ رمضان میں سحری کو ترک نہ کرے۔[1]

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) اپنے والد گرامی حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) دودھ سے افطار کرنا پسند کیا کرتے تھے۔[2]

حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا: ماہ رمضان میں نماز بجالاوگے اور پھر افطار کرو، مگر یہ کہ تم کچھ ایسے لوگوں کے ساتھ ہو جو (تمہارے) افطار کے منتظر ہوں، پس اگر تم ان کے ساتھ ہو تو ان کی مخالفت نہ کرو اور افطار کرلو اس کے بعد نماز بجالاو۔
راوی نے دریافت کیا، کیوں؟
امام (علیہ السلام) نے فرمایا: چونکہ دو فریضہ تم پر ہیں، افطار اور نماز، پس ان میں سے بہترین سے شروع کرو اور ان دو میں سے بہتر نماز ہے۔
پھر آپ نے فرمایا: جب نماز، روزہ کی حالت میں رہ کر پڑھوگے تو تمہاری یہ نماز روزہ کی حالت میں لکھی جائے گی، پس یہ جو روزہ سے ختم کروگے (نماز کو افطار سے پہلے بجالاوگے) میری نظر میں زیادہ محبوب ہے۔[3]

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے افطار کے بارے میں سوال کیا گیا کہ نماز (مغرب) سے پہلے کی جائے ہے یا بعد میں؟
امام (علیہ السلام) نے فرمایا: اگر اس کے ساتھ ایسا گروہ ہے جن کے افطار کرنے میں رکاوٹ ایجاد کرنے کا خدشہ ہو تو ان کے ساتھ افطار کرے اور اگر اس کے علاوہ ہے تو نماز پڑھے پھر افطار کرے۔[4]

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: جب کوئی انسان نیم گرم پانی سے افطار کرے تو یہ پانی اس کے جگر کو پاکیزہ کردے گا اور گناہوں کو دل سے دھو دے گا اور آنکھ اور آنکھ کی سیاہی کو قوت دے گا۔[5]

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: ہم اپنے بچوں کو جب وہ پانچ سال کے ہوجاتے ہیں تب نماز کا حکم دیتے ہیں، پس تم اپنے بچوں کو جب وہ سات سال کے ہوجائیں تو نماز کا حکم دو۔
اور ہم اپنے بچوں کو جب وہ سات سال کے ہوجاتے ہیں تب روزہ کا حکم دیتے ہیں تاکہ دن کے جتنے حصہ میں روزہ رکھ سکتے ہیں اتنی دیر تک روزہ ہیں، اگر ہوسکے تو آدھا دن یا اس سے زیادہ یا اس سے کم، پس جب ان پر پیاس اور بھوک کا غلبہ ہو تو افطار کرلیں تاکہ روزہ رکھنے کی عادت اور طاقت حاصل کرلیں۔ پس تم اپنے بچوں کو جب وہ نو سال کے ہوجائیں تو روزہ کا حکم دو، دن کے جتنے حصہ میں روزہ رکھ سکیں، پس جب پیاس کا ان پر غلبہ ہو تو افطار کرلیں۔[6]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] الکافی ج 4 باب انه یستحب السحور ص 94 ح 1 و الحدیث حسن علی ما قاله المجلسی (مراة العقول ج 16 ص 259).
[2] تهذیب الاحکام ج 4 باب فضل السحور و ما یستحب ان یکون علیه الافطار ص 199 ح 10 و الحدیث موثق علی ما قاله المجلسی (ملاذ الاخیار ج 6 ص 526).
[3] تهذیب الاحکام ج 4 باب فضل السحور و ما یستحب ان یکون علیه الافطار ص 198 ح 6 و الحدیث موثق علی ما قاله المجلسی (ملاذ الاخیار، ج 6، ص 525).
[4] الکافی، ج 4 باب وقت الافطار ص 101 ح 3 قال المجلسی الحدیث حسن و مضمونه مشهور بین الاصحاب علی الاستحباب (مراة العقول ج 16 ص 27).
[5] الکافی، ج 4 باب ما یستحب ان یفطر علیه ص 152 ح 2قال المجلسی الحدیث حسن و یدل علی استحباب الافطار بالماء الفاتر ای الحار الذی سکن حره (مراة العقول، ج 16 ص 373).
[6] الکافی ، چ 3 باب صلاة الصبیان و متی یوخدون بها ص 49 ح 1.و الحدیث حسن علی ما قاله المجلسی

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 60