شيعوں کی فقہ کے ماخذ کون سے ہيں؟

Sat, 04/03/2021 - 19:48

مکتب تشيع کے پيرو قرآن مجيد کو اپنی فقہ کا محکم ترين منبع اور احکام الہی، کی شناخت کا معيار سمجھتے ہيں کيونکہ شيعوں کے ائمہ  نے فقہی احکام کے حصول کے لئے قرآن مجيد کو ايک محکم مرجع قرار ديا ہے۔

شيعوں کی فقہ کے ماخذ کون سے ہيں؟

اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ شيعوں کی فقہ کے ماخذ کون سے ہيں؟ تو لیجیئے اس کا جواب حاضر ہے۔

جواب:شيعہ ،قرآن مجيد اور سنت نبوی کی پيروی کرتے ہوئے احکام شرعی کو درج ذيل چاربنيادی مآخذ سے حاصل کرتے
ہيں :
١۔کتاب خدا
٢۔سنت
٣۔اجماع
٤۔عقل
مذکوره ماخذو منابع ميں سے قرآن مجيد اور سنت نبویۖ فقہ شيعہ کے بنيادی ترين ماخذ ہيں اب ہم يہاں ان دونوں کے سلسلے
ميں اختصار کيساتھ گفتگو کرينگے :

کتاب خدا؛ قرآن مجيد

مکتب تشيع کے پيرو قرآن مجيد کو اپنی فقہ کا محکم ترين منبع اور احکام الہی، کی شناخت کا معيار سمجھتے ہيں کيونکہ
شيعوں کے ائمہ  نے فقہی احکام کے حصول کے لئے قرآن مجيد کو ايک محکم مرجع قرار ديا ہے اور يہ حکم ديا ہے کہ
کسی بھی نظرئيے کو قبول کرنے سے پہلے اسے قرآن مجيد پر پرکھا جائے اگر وه نظريہ قرآن سے مطابقت رکھتا ہو تو
اسے قبول کرليا جائے ورنہ اس نظرئيے کو نہ مانا جائے .
اس سلسلے ميں امام صادق فرماتے ہيں:
وکل حديث لايوافق کتاب للهّ فھو زخرف.( 1)
ہر وه کلام جو کتاب خدا سے مطابقت نہ رکھتا ہو وه باطل ہے.
اسی طرح امام صادق نے رسول خداۖ سے يوں نقل کيا ہے:
  أيّھا الناس ماجائکم عن يوافق کتاب للهّ ف أنا قلتہ وماجاء کم يخالف کتاب للهّ فلم أقلہ(2)
اے لوگو! ہر وه کلام جو ميری طرف سے تم تک پہنچے اگر وه کتاب خدا کے مطابق ہو تو وه ميرا قول ہے ليکن اگر تم تک
پہنچنے والا کلام کتاب خدا کا مخالف ہو تو وه ميرا قول نہيں ہے.
ان دو حديثوں سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ شيعوں کے ائمہ  کی نگاه ميں احکام شرعی کو حاصل کرنے کے لئے کتاب
خدا محکم ترين ماخذ شمار ہوتی ہے.
سنت
حضرت رسول اکرم کا قول و فعل اور کسی کام کے سلسلے ميں
آنحضرتۖ کی تائيد کو سنت کہتے ہيں اسے شيعوں کی فقہ کا دوسرا ماخذ شمار کيا جاتا ہے سنت نبویۖ کو نقل کرنے والے
ائمہ معصومين ہيں جو آنحضرتۖ کے علوم کے خزينہ دار ہيں. البتہ نبی اکرمۖ کے چند دوسرے طريقوں سے نقل ہونے والے ارشادات کو بھی شيعہ قبول کرتے ہيں.يہاں پرضروری ہے کہ
ہم دو چيزوں کے متعلق بحث کريں :
سنت نبویۖ سے تمسک کی دليليں: شيعوں کے ائمہ  نے اپنی پيروی کرنے والوں کوجس طرح قرآن مجيد پر عمل کرنے کا
حکم ديا ہے اسی طرح انہوں نے سنت نبوی کی پيروی کرنے کی بھی تاکيد کی ہے اور ہميشہ اپنے ارشادات ميں ان دونوں
سے تمسک اختيار کرنے کا حکم ديا ہے . امام صادق فرماتے ہيں :
  اِذا ورد عليکم حديث فوجدتم لہ شاھدًا من کتاب للهّ أو من قول رسول واِلا فالذ جائکم بہ أولیٰ بہ.( 3)
جب کوئی کلام تم تک پہنچے تو اگر تمہيں کتاب خدا يا سنت نبویۖ سے اس کی تائيد حاصل ہوجائے تو اسے قبول کرلينا ور
نہ وه کلام بيان کرنے والے ہی کو مبارک ہو .
اسی طرح امام محمدباقر نے ايک جامع الشرائط فقيہ کے لئے سنت نبی اکرم سے تمسک کو اہم ترين شرط قرار ديتے
ہوئے يوں فرمايا ہے:
  اِنّ الفقيہ حق الفقيہ الزاھد ف الدنيا والراغب ف الآخرة المتمسک بسنّة النبّ ( 4)
بے شک حقيقی فقيہ وه ہے جو دنيا سے رغبت نہ رکھتا ہو اور آخرت کا اشتياق رکھتا ہو ، نيز سنت نبوی سے تمسک
رکھنے والا ہو.
ائمہ معصومين  نے اس حد تک سنت نبویۖ کی تاکيد فرمائی ہے کہ وه کتاب خدا اور سنت نبوی کی مخالفت کو کفر کی
اساس قرار ديتے ہيں اس سلسلے ميں امام صادق يوں فرماتے ہيں :
  مَن خالف کتاب للهّ وسنّة محمّد فقد کفر.( 5)
جس شخص نے کتاب خدا اور سنت محمدی کی مخالفت کی وه کافر ہوگيا .
اس بيان سے واضح ہو جاتا ہے کہ شيعہ مسلمانوں کے بقيہ فرقوں کی بہ نسبت نبی اکرمۖ کی سنت کو زياده اہميت ديتے ہيں
اور اسی طرح بعض لوگوں کايہ نظريہ بھی باطل ہوجاتا ہے کہ شيعہ نبی اکرمۖ کی سنت سے بيگانہ اور دور ہيں . احاديث اہل بيت سے تمسک کے دلائل
عترت پيغمبرکی احاديث کے سلسلے مينشيعوں کے نظريہ کی وضاحت کے لئے ضروری ہے کہ ہم ذيل کے دو موضوعات
پر گفتگو کريں :
 الف: ائمہ معصومين کی احاديث کی حقيقت.
ب:اہل بيت رسولۖ سے تمسک کے اہم اور ضروری ہونے کے دلائل . اب ہم يہاں ان دو موضوعات کے سلسلے ميں مختصر
طور پر تحقيقی گفتگو کريں گے :
عترت رسولۖ کی احاديث کی حقيقت
شيعونکے نکتہ نظر سے فقط خداوندحکيم ہی انسانوں کے لئے شريعت قرار دينے اور قانون وضع کرنے کا حق رکھتا ہے
اور اس کی طرف سے يہ شريعت اور قوانين پيغمبراکرمۖ کے ذريعہ لوگوں تک پہنچتے ہيں. واضح ہے کہ نبی اکرمۖ خدا اور
انسانوں کے درميان وحی کے ذريعہ حاصل ہونے والی شريعت کے پہنچانے کے لئے واسطے کی ذمہ داری کو نبھاتے ہيں
اس سے يہ واضح ہوجاتا ہے اگر شيعہ اہل بيت  کی احاديث کو اپنی فقہ کے ماخذ ميں شمار کرتے ہيں تو ہرگز اس کا يہ
مطلب نہيں ہے کہ اہل بيت ع کی احاديث سنت نبویۖ کے مقابلے ميں کوئی مستقل حيثيت رکھتی ہيں بلکہ احاديث اہل بيت ع
اس وجہ سے معتبر ہيں کہ وه سنت نبویۖ کو بيان کرتی ہيں.
اس اعتبارسے ائمہ معصومين ع کبھی بھی اپنی طرف سے کوئی بات نہيں فرماتے بلکہ جو کچھ وه فرماتے ہيں وه در
حقيقت سنت پيغمبرۖ ہی کی وضاحت ہوتی ہے يہاں پر ہم اس بات کو ثابت کرنے کے لئے ائمہ معصومين ع کی چند روايات
پيش کريں گے :
١۔امام صادق نے ايک شخص کے سوال کے جواب ميں يوں فرماياہے:
  مھما أجبتک فيہ بشء فھو عن رسول لله لسنا نقول برأينا من شئ.(6)
اس سلسلے مينجو جواب ميں نے تمہينديا ہے وه رسول خداۖ کی طرف سے ہے ہم کبھی بھی اپنی طرف سے کچھ نہيں کہتے
:اور ايک مقام پر يوں فرماتے ہيں: حديث حديث أب ، و حديث أب حديث جد و حديث جد حديث الحسين وحديث الحسين حديث الحسن و حديث الحسن حديث  أميرالمؤمنين ، و حديث أمير المؤمنين حديث رسول للهّ و حديث رسول للهّ قول للهّ عزّ وجلّ.(7)
ميری حديث ميرے والد (امام باقر )کی حديث ہے ، اور ميرے والد کی حديث ميرے دادا (امام زين العابدين ) کی حديث ہے اور ميرے دادا کی حديث امام حسين کی حديث ہے اور امام حسين کی حديث امام حسن کی حديث ہے اور امام حسن کی حديث امير المومنين کی حديث ہے اور امير المومنين کی حديث رسول خدا کی حديث ہے اور رسول خدا کی حديث خداوندمتعال کا قول ہے .
٢۔امام محمد باقر نے جابر سے يوں فرمايا تھا :
  حدثن أب عن جد رسول للهّ عن جبرائيل عن للهّ عزّوجلّ و کلما أحدّثک بھذا الأسناد.( 8)
ميرے پدربزرگوار نے ميرے دادا رسول خدا سے اور انہوں نے جبرئيل سے اور انہوں نے خداوندعالم سے روايت کی ہے
اور جو کچھ ميں تمہارے لئے بيان کرتا ہوں ان سب کا سلسلہ سند يہی ہوتا ہے.
اہل بيت پيغمبرۖ سے تمسک کے اہم اور ضروری ہونے کے دلائل
شيعہ اور سنی دونوں فرقوں کے محدثين اس بات کا عقيده رکھتے ہيں کہ رسول خدا نے بھی ميراث کے طور پر اپنی امت کے لئے دو قيمتی چيزيں چھوڑی ہيں اور تمام مسلمانوں کو ان کی پيروی کا حکم ديا ہے ان ميں سے ايک کتاب خدا ہے اور دوسرے آنحضرتۖ کے اہل بيت ہيں يہاں ہم نمونے کے طور پر ان روايات ميں سے بعض کا ذکر کرتے ہيں :
١۔ ترمذی نے اپنی کتاب صحيح ميں جابر بن عبدلله انصاری سے اور انہوں نے نبی اکرمۖ سے روايت کی ہے :
  ياأيّھا النّاس اِنّ قد ترکت فيکم ما اِن أخذتم بہ لن تضلّوا : کتاب للهّ و عترت أہل بيت.( 9)
اے لوگو! ميں تمہارے درميان دو چيزيں چھوڑے جارہا ہوں اگر تم ان سے متمسک رہے تو ہرگز گمراه نہ ہوگے اور وه
کتاب خدا اور ميری عترت ہيں.
٢۔اسی طرح ترمذی نے اپنی کتاب صحيح ميں يہ حديث نقل کی ہے : قال رسول للهّ اِنّ تارک فيکم ما اِن تمسکتم بہ لن تضلّوا بعد أحدھما أعظم من الآخر : کتاب للهّ حبل ممدود من السماء اِلیٰ
الأرض و عترت أھل بيت ولن يفترقا حتیٰ يردا علّ الحوض فانظروا کيف تخلفون فيھما.( 10)
ميں تمہارے درميان دوگرانقدر چيزيں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان سے متمسک رہوگے ہرگز گمراه نہ ہوگے . ان دو
چيزوں ميں سے ايک دوسری سے بڑی ہے ، کتاب خدا ايک ايسی رسی ہے جو آسمان سے زمين تک آويزاں ہے اور
دوسرے ميرے اہل بيت ہيں اور يہ دونوں ہرگز ايک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے يہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے
آمليں لہذا يہ ديکھنا کہ تم ميرے بعد ان کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرتے ہو.
٣۔مسلم بن حجاج نے اپنی کتاب صحيح ميں پيغمبراکرم سے يہ روايت نقل کی ہے: ألا أيّھا النّاس فاِنّما أنا بشر يوشک أن يأت رسول ربّ فأجيب و أنا تارک فيکم ثقلين أولھما کتاب للهّ فيہ الھدیٰ والنور فخدوا
بکتاب للهّ واستمسکوا بہ فحثّ علیٰ کتاب للهّ و رغّب فيہ ثم قال : أہل بيت أذکرکم للهّ ف أہل بيت أذکرکم للهّ ف أہل بيت أذکرکم
( للهّ ف أہل بيت.( 11)
اے لوگو!بے شک ميں ايک بشر ہوناور قريب ہے کہ ميرے پروردگار کا بھيجا ہوا نمائنده آئے اور ميں اسکی دعوت قبول کروں اور ميں تمہارے درميان دو وزنی چيزيں چھوڑے جارہاہوں ايک کتاب خدا ہے جس ميں ہدايت اور نور ہے کتاب خدا کو لے لو اور اسے تھامے رکھو اور پھر پيغمبر اسلامۖ نے کتاب خدا پر عمل کرنے کی تاکيد فرمائی اور اس کی جانب رغبت دلائی اور اس کے بعد يوں فرمايا اور دوسرے ميرے اہل بيت ہيں اور ميں تمہيں اپنے اہل بيت کے سلسلے ميں وصيت و تاکيد کرتا ہوں اور اس جملے کو تين مرتبہ دہرايا .
٤۔بعض محدثين نے پيغمبراسلامۖ سے يہ روايت نقل کی ہے:
  اِنّ تارک فيکم الثقلين کتاب للهّ و أہل بيتو اِنّھما لن يفترقا حتیٰ يردا علّ الحوض( 12)
بے شک! ميں تمہارے درميان دووزنی چيزيں چھوڑے جارہا ہوں ايک کتاب خدا اور دوسرے ميرے اہل بيت ہيں اور يہ
دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے يہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے آمليں .
يہاں پر اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اس سلسلے ميں اتنی زياده حديثيں موجود ہيں کہ ان سب کا اس مختصر کتاب ميں
ذکر کرنا ممکن نہيں ہے.علامہ ميرحامد حسين نے اس روايت کے سلسلۂ سند کو اپنی چھ جلدوں والی کتاب (عبقات الانوار)
ميں جمع کر کے پيش کيا ہے. گذشتہ احاديث کی روشنی ميں يہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ کتاب خدا اور سنت نبویۖ کے ساتھ ساتھ آنحضرتۖ کے اہل بيتۖ سے تمسک اور ان کی پيروی بھی اسلام کے ضروريات ميں سے ہے.
اب سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ عترت پيغمبر سے مراد کون افراد ہيں کہ جن کی پيروی کو نبی اکرم نے سب مسلمانوں پر واجب قرار ديا ہے ؟
اس مسئلے کی وضاحت کے لئے ہم احاديث کی روشنی ميں عترت نبیۖ کے سلسلے ميں تحقيق پيش کرنا چاہيں گے:
اہل بيت پيغمبر کون ہيں؟ گذشتہ روايات سے واضح ہوجاتا ہے کہ پيغمبراسلامۖ نے سب مسلمانوں کو اپنی عترت کی اطاعت کا حکم ديا ہے اور کتاب خدا کی طرح انہيں بھی لوگوں کا مرجع قرار ديا ہے اور صاف لفظوں ميں فرمايا ہے کہ ''قرآن اور عترت ہرگز ايک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے'' اس بنياد پر اہل بيت پيغمبرۖ وه ہيں کہ جنہيں آپۖ نے قرآن مجيد کا ہم پلہ قرار ديا ہے اور جو معصوم ہونے کے ساتھ ساتھ معارف اسلامی سے مکمل طور پر آگاہی رکھتے ہيں.کيونکہ اگر وه ان صفات کے مالک نہ ہوں تو قرآن مجيد سے جدا ہو جائيں گے جبکہ پيغمبراسلام نے فرمايا ہے کہ : قرآن اور عترت ہرگز ايک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے يہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کريں . اس طرح يہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اہل بيت ٪ اور ان کی اعلی صفات کی صحيح طور پر شناخت ايک ضروری امر ہے اب ہم اس سلسلے ميں مسلمانوں کے درميان بزرگ سمجھنے جانے والے محدثين سے منقول روايات کی روشنی ميں چند واضح دليليں پيش کريں گے :
١۔ مسلم بن حجاج نے حديث ثقلين کا ذکر کرنے کے بعد يوں کہا ہے کہ:
''يزيد بن حيان نے زيد بن ارقم سے پوچھا اہل بيت پيغمبرۖ کون ہيں ؟ کيا وه پيغمبراکرم کی بيوياں ہيں؟'' زيد بن ارقم نے
جواب ديا : لا و أيم للهّ اِنّ المرأه تکون مع الرجل العصر من الدھر ثم يطلّقھا فترجع اِلیٰ أبيھا و قومھا أھل بيتہ أصلہ و عصبتہ الذين حرموا   الصدقة بعده.( 13)
نہيں خدا کی قسم عورت جب ايک مدت تک کسی مرد کے ساتھ رہتی ہے اور پھر وه مرد اسے طلاق دے ديتاہے تو وه
عورت اپنے باپ اور رشتے داروں کے پاس واپس چلی جاتی ہے اہل بيت
پيغمبرۖ سے مراد وه افراد ہيں جو پيغمبراکرمۖ کے اصلی اور قريبی رشتہ دار ہيں کہ جن پر آنحضرتۖ کے بعد صدقہ حرام
ہے.
يہ قول بخوبی اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ وه عترت پيغمبرۖ جن سے تمسک قرآن کی پيروی کی طرح واجب ہے ان سے ہرگز آنحضرتۖ کی بيوياں مراد نہيں ہيں بلکہ اہل بيت پيغمبرۖ سے وه افراد مراد ہيں جو آنحضرتۖ سے جسمانی اور معنوی رشتہ رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر چندخاص صلاحتيں بھی پائی جاتی ہوں.تبھی تو وه قرآن مجيد کی طرح مسلمانوں کا مرجع قرار پاسکتے ہيں.
٢۔پيغمبراکرمۖ نے صرف اہل بيت ٪ کے اوصاف بيان کرنے پر ہی اکتفاء نہيں کی تھی بلکہ حضور اکرمۖ نے ان کی تعداد(جو  کہ باره ہے) کو بھی صاف لفظوں ميں بيان کرديا تھا :
مسلم نے جابر بن سمره سے نقل کيا ہے: سمعت رسول للهّ يقول: لايزال الاِسلام عزيزًا اِلیٰ اثن عشر خليفة ثم قال کلمة لم أفھمھا فقلت لأب ماقال ؟ فقال: کلھم من قريش. (14)
ميں نے پيغمبرخدا کو يہ فرماتے ہوئے سنا کہ اسلام کو باره خلفاء کے ذريعہ عزت حاصل ہوگی اور پھر پيغمبراکرمۖ نے
کوئی لفظ کہا جسے ميں نہيں سمجھ سکا لہذا ميں نے اپنے والد سے پوچھا کہ پيغمبراکرمۖ نے کيا فرمايا ہے تو انہوں نے جواب ديا کہ پيغمبراکرمۖ نے فرمايا ہے کہ وه سب خلفاء قريش ميں سے ہوں گے .
مسلم بن حجاج نے اسی طرح رسول خداۖ سے يہ روايت بھی نقل کی ہے :
  لايزال أمر الناس ماضيًا ماوليھم اثنا عشر رجلاً. (15)
لوگوں کے امور اس وقت تک بہترين انداز ميں گزريں گے جب تک ان کے باره والی رہيں گے.
يہ دو روايتيں شيعوں کے اس عقيدے کی واضح گواه ہيں'' کہ پيغمبراسلامۖ کے بعد عالم اسلام کے باره امام ہی لوگوں کے حقيقی پيشوا ہيں'' کيونکہ اسلام ميں ايسے باره خلفاء جو پيغمبراسلامۖ کے بعد بلافاصلہ مسلمانوں کے مرجع اور عزت اسلام
  کا سبب بنے ہوں ، اہل بيت کے باره اماموں کے علاوه نہيں ملتے کيونکہ اگر اہل سنت کے درميان خلفاء راشدين کہے جانے والے چار خلفاء سے صرف نظر کرليا جائے پھر بھی بنی اميہ اور بنی عباس کے حکمرانوں کی تاريخ اس بات کی بخوبی گواہی ديتی ہے کہ وه ہميشہ اپنے برے کردار کی وجہ سے اسلام اور مسلمين کی رسوائی کا سبب بنتے رہے ہيناس اعتبار سے وه (اہل بيت)کہ جنہيں پيغمبراسلام نے قرآن مجيد کا ہم پلہ اور مسلمانوں کا مرجع قرار ديا ہے وه عترت نبیۖ کے وہی باره امام ہيں جو سنت نبیۖ کے محافظ اور آنحضرتۖ کے علوم کے خزينہ داررہے ہيں.
٣۔حضرت امير المومنين علی بن ابی طالب کی نگاه ميں بھی مسلمانوں کے ائمہ کو بنی ہاشم سے ہونا چاہيے يہ بات شيعوں
کے اس نظرئيے (کہ اہل بيت کی شناخت حاصل کرنا ضروری ہے) پر ايک اور واضح دليل ہے . حضرت امام علی
فرماتے ہيں:
  اِنّ الأئمة من قريش غرسوا ف ھذا البطن من بن ہاشم لاتصلح علیٰ مَن سواھم ولا تصلح الولاة من غيرھم۔( 16)
ياد رکھو قريش کے سارے امام جناب ہاشم کی اسی کشت زار ميں قرار دئيے گئے ہيں اور يہ امامت نہ ان کے علاوه کسی
کو زيب ديتی ہے اور نہ ان سے باہر کوئی اس کا اہل ہوسکتا ہے.
 نتيجہ:
گزشتہ روايات کی روشنی ميں دو حقيقتيں آشکار ہوجاتی ہيں:
١۔قرآن مجيد کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اہل بيت ٪ سے تمسک اور ان کی پيروی بھی واجب ہے .
٢۔پيغمبر اسلام کے اہل بيت جو قرآن مجيد کے ہم پلہ اور مسلمانوں کے مرجع ہيں مندرجہ ذيل خصوصيات کے مالک ہيں:
الف:وه سب قبيلۂ قريش اور بنی ہاشم کے خاندان ميں سے ہيں.
ب:وه سب پيغمبراکرمۖ کے ايسے رشتہ دار ہيں جن پر صدقہ حرام ہے .
ج:وه سب عصمت کے درجے پر فائز ہيں ورنہ وه عملی طور پر کتاب خدا سے جدا ہوجائيں گے جبکہ پيغمبراکرمۖ کا ارشاد ہے کہ يہ دونوں(قرآن و عترت) ہرگز ايک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے يہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے آمليں گے
د:ان کی تعداد باره ہے جو يکے بعد ديگرے مسلمانوں کے امام ہوں گے.
ھ:پيغمبراکرمۖ کے يہ باره خلفاء اسلام کی عزت و شوکت کا سبب بنينگے.
گذشتہ روايات ميں موجود اوصاف کو مدنظر رکھنے سے يہ بات آفتاب کی مانند روشن ہوجاتی ہے کہ وه اہل بيت جن کی
پيروی کا پيغمبراکرمۖ نے حکم فرمايا ہے ان سے آنحضرتۖ کی مراد وہی باره ائمہ ع ہيں جن کی پيروی کرنے اور احکام فقہ
ميں ان سے تمسک اختيار کرنے کو شيعہ اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے ہيں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  1. اصول کافی، جلد ١ ، کتاب فضل العلم ، باب الاخذ بالسنة و شواہد الکتاب ، حديث ٣
  2.  گذشتہ حوالہ حديث ٥
  3.  اصول کافی جلد ١ کتاب فضل العلم ، باب الاخذ بالسنہ و شواھد الکتاب حديث ٢
  4.   گذشتہ حوالہ حديث ٨ 
  5.   گذشتہ حوالہ حديث ٦
  6.  جامع الاحاديث الشيعہ جلد ١ ص ١٢٩
  7.  گذشتہ حوالہ ص ١٢٧
  8.  گذشتہ حوالہ ص ١٢٨
  9.  صحيح ترمذی ، کتاب المناقب ، باب مناقب اہل بيت النبی جلد ٥ ص ٦٦٢ حديث ٣٧٨٦ طبع بيروت
  10.   گذشتہ حوالہ ص ٦٦٣ حديث ٣٧٨٨
  11.  صحيح مسلم جز ٧ فضائل علی ابن ابی طالب ص ١٢٢ اور ١٢٣
  12.  مستدرک حاکم جز ٣ ص ١٤٨ ، الصواعق المحرقہ باب ١١ فصل اول ص ١٤٩ اس مضمون کے قريب بعض ) درج ذيل کتابوں ميں بھی روايات موجود ہيں.مسنداحمد جز ٥ ص ١٨٢ اور ١٨٣ ۔کنز العمال ،جز اول باب الاعتصام بالکتاب والسنة ص ٤٤
  13.  صحيح مسلم جز ٧ باب فضائل علی بن ابی طالب ،ص ١٣٢ طبع مصر
  14.  صحيح مسلم جلد ٦ ص ٣ طبع مصر
  15.  گذشتہ حوالہ
  16. نہج البلاغہ (صبحی صالح)خطبہ ١٤٤

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
8 + 3 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 61