خلاصہ: حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے زمانے کے سیاسی اختلافات اور تنازعات کے باعث موقع پایا کہ علوم آل محمد (ص) کو دنیا بھر میں شائع کریں، آپ نے مختلف سفروں میں متعدد شاگردوں کو تعلیم دی اور آپ کے شاگرد صرف شیعہ نہیں تھے بلکہ دیگر مکاتب فکر کے پیشوا اور پیروکار بھی تھے، آپ کی تعلیم سے ایسے شاگرد مختلف علوم میں ماہر بن گئے جنہوں نے دنیابھر میں ان علوم کو پہنچایا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی ۱۷ ربیع الاول ۸۳ ہجری قمری میں ولادت باسعادت ہوئی اور ۲۵ شوال ۱۴۸ ہجری قمری میں ۶۵ یا ۶۸ سال کی عمر میں منصور دوانیقی کی زہر سے شہید ہوئے۔ آپ نے ۱۲ سال اپنے جد بزرگوار حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) کے زمانے میں اور ۱۹ سال اپنے والد گرامی حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) کے دور میں گزارے اور ۳۴ سال اپنے والد گرامی کے بعد زندہ رہے، آپ کو شہادت کے بعد قبرستان بقیع میں اپنے باپ امام محمد باقر (علیہ السلام) اور اپنے جد حضرت امام سجاد (علیہ السلام) اور اپنے چچا حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام) کے پاس دفن کیا گیا۔
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے دور میں ترجمہ کی تحریک کے انعقاد کی وجہ سے کہ جو علوم، غیر اسلامی ممالک سے داخل ہوئے تھے، بہت سارے مسلمانوں میں علم کی طرف رغبت پیدا ہوئی خاص کر انہوں نے فلسفہ، طب، علوم انسانی(Humanities)، ہیئت اور علم کائنات کے علوم جو اکثر نظریاتی تھے اور ان میں عملی اور تحقیقی کیفیت نہیں پائی جاتی تھی اور نیز زیادہ تر بلادلیل بنیادوں پر قائم تھے، مسلمانوں کے اکثر شہروں میں جیسے مدینہ، مکہ، کوفہ، بصرہ وغیرہ میں درسی محافل اور علمی مناظرے منعقد ہوئے۔
ایسے زمانے میں حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے موقع پایا کہ اپنے عظیم علم سے جو مختلف علمی شعبوں پر مشتمل تھا اور قرآن و اہل بیت (علیہم السلام) سے آپ تک پہنچا تھا، اسلامی علم و ثقافت کی تحریک کا چراغ روشن کریں اور اپنے علم سے جو وحی اور عقل و دلیل پر قائم تھا، حیات انسانیت کے سراسر عالم میں اجالا کردیں۔
آپ کے اختیاری اور جبری طور پر عراق اور حیرہ، ہاشمیہ، کوفہ اور مکہ جیسے شہروں میں سفر اور دیگر فقہی، کلامی، فلسفی مکاتب فکر کے راہنماوں سے ملاقاتیں اور خصوصاً مادی مکاتب فکر کے سربراہ جیسے ابن ابی العوجا، ابن مقفع، عبدالملک بصری، عبدالملک ویصانی سے گفتگو کا قرآن و اہل بیت (علیہم السلام) کے علوم کی معاشرے میں اشاعت کا خاص کردار تھا۔ ان تمام شہروں میں مختلف طرح کے طالب علم آسانی سے اور بغیر کسی شرط کے (کہ جو اہل بیت علیہم السلام کا اخلاقی کردار ہے) آنحضرت کے درس کی کلاسز میں آتے اور مختلف علوم سے باریاب ہوتے اور اس امام کے مقدس وجود سے فیضیاب ہوتے جو عقل و علم کا مجسم نمونہ تھے۔ شاگردوں نے متعدد قیمتی کتابیں اور رسالے تحریر کیے جس سے آنحضرت کے علوم، دنیا کی مشرق و مغرب میں پھیل گئے۔
آنحضرت نے انحرافی مکاتب فکر اور مختلف علوم کے علما سے سامنا کرتے ہوئے صبر اور اخلاقی اقدار کا خیال رکھتے ہوئے علمی مناظرہ کیا جس سے تشیع کی حدود میں اسلام کی تمام مکاتب فکر بر برتری ثابت ہوگئی۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے مختلف علوم کے علماء جیسے اطبا، فقہا، متکلمین، منجمین، ہندی، ایرانی اور اسکندریہ کے مکاتب فکر کے پیروکار صوفیوں سے علمی مناظرے اور گفتگوئیں اور خاص کر اموی اور عباسی مدارس میں تعلیم یافتہ افراد سے فقہی، تفسیری اور کلامی بحثوں کا انعقاد، شیعہ اور سنی مآخذ میں درج کیا گیا ہے۔
آپ نے مدینہ کو درسگاہ میں بدل دیا جو مختلف علوم کو براہ راست اور واسطہ کے ذریعے علم پسندوں تک منتقل کرتے اور اموی و عباسی مکتب کے مقابلہ میں حقیقی اسلام کو واضح کردیا۔
آپ کے شاگردوں کی تعداد تقریباً چار ہزار بتائی گئی ہے۔ آپ کی درسگاہ کے طلبا مختلف شعبوں میں ماہر بنے جیسے علم طب، کیمیا، نجوم، کلام، فقہ، علوم انسانی، طبیعیات، مخلوقات کے بارے میں تحقیق، علم اصول وغیرہ اور ان میں سے بعض شاگرد، کئی شعبوں میں ماہر بن گئے اور ہر ایک نے آپ کی حوصلہ افزائی سے لوگوں کی علمی ترقی کے لئے مدینہ اور دیگر شہروں میں مدرسہ اور درسی حوزہ کا انعقاد کیا۔
آپ کے ایک شاندار شاگرد جابر بن حیان ہیں جن کی علم کیمیا کے سلسلے میں پانچ سو سے زائد رسالے ہیں جو ایک ہزار صفحہ پر مشتمل ہیں، اور نیز ہشام بن حکم ہیں جو اکتیس جلدوں پر مشتمل کتب کے مصنف ہیں، نیز محمد بن مسلم، ابان بن تغلب، ہشام بن سالم، زرارہ بن اعین، حمران بن اعین، مومن الطاق اور مفضل بن عمر کوفی ہیں۔
آپ کے شاگرد شیعہ افراد میں محدود نہیں تھے بلکہ غیر شیعہ افراد نے بھی بلاشرط آپ کی شاگردی اختیار کی جن میں سے مالک بن انس، ابوحنیفہ (جو مالکی اور حنفی مکتب فکر کے پیشوا ہیں)، سفیان ثوری، سفیان بن عینیہ، ابن جریح، ابن قاسم ہیں۔
ابوحنیفہ جو مذہب حنفی کے سربراہ ہیں، ان کا آپ کے بارے میں کہنا ہے: " ما رأیت افقه من جعفربن محمد و انّه اعلم الامة"[1]، "میں نے جعفر ابن محمد سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا اور بیشک وہ امت کے سب سے بڑے عالم ہیں"۔
مالک بن انس جو مذہب مالکی کے پیشوا ہیں، کہتے ہیں: "جعفر ابن محمد سے افضل آدمی کے بارے میں کسی کان نے نہیں سنا اور کسی انسان کے دل میں تصور نہیں آیا"۔[2]
ابن خلکان کا کہنا ہے: " فضله اشهر من ان یذکر"[3]، "آپ کی فضیلت اس سے زیادہ ہے کہ بیان کی جاسکے"۔
نتیجہ: حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے دنیابھر کے مختلف شہروں تک متعدد علوم کو پہنچایا، آپ نے مختلف شہروں میں سفر کرتے ہوئے طرح طرح کے مکاتب فکر کے علما سے گفتگو کی اور ان کے سامنے حقیقی اسلام کو پیش کیا۔ آپ کی شاگردی اختیار کرنے والے افراد صرف شیعہ نہیں بلکہ دیگر مذاہب کے پیشوا اور پیروکار بھی تھے۔ آنحضرت نے متعدد علوم کی اس طرح سے اشاعت کی کہ آپ کے شاگرد کئی علوم میں ماہر بن گئے اور کئی علوم میں کتابیں تحریر کردیں، لہذا صادق آل محمد (ص) نے ساری دنیا میں علم کے چراغ روشن کردیے جو آج تک فقہ جعفری اور مذہب شیعہ کی حقانیت پر واضح دلیل اور لاجواب ثبوت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] اعلام النبلاء، ج 6، ص 257 ۔ تاریخ کبیر، ج 2، ص 199۔
[2] اعلام النبلاء، ج 6، ص 258۔
[3] وفیات الاعیان، ج 1، ص 327۔
Add new comment