تکفیر
داعش در حقیقت ایک ایسا گروپ ہے جو در حقیقت ، دنیا میں کہیں بھی آگ کو بھڑکانے میں ملوّث ہوسکتا ہے اور اسکے وجود کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ابوبکر ناجی ابتدائی بحث میں «سائکس پیکو معاہدے کے بعد سے عالمی نظام حکومت» کے عنوان تلے لکھتا ہے کہ «سائکس پیکو» معاہدے کے بعد عالمی نظام دو بڑے حصوں میں تقسیم ہوگیاکہ جو یہی دو ریاستیں امریکہ اور روس ہیں جنہوں نے اپنے حلیفوں اور اتحادیوں کے ساتھ ایک مجموعہ کے طور پر آکر کام کرنے لگے، وہ ایک اور جگہ پر «طاقت کا وہم؛ فوجی طاقت اور جھوٹے میڈیا کے توسط سے»کے عنوان سےلکھتا ہے کہ عالمی نظام پر انکا تسلط انکی مرکزی قدرت و طاقت کے بل بوتے پر ہے، ابوبکر ناجی نے تین طریقوں سے طاقت کے مرکزیت کے عوامل کا مطالعہ کرتا ہے۔
وہابیت عمل کو ایمان کی ایک شرط سمجھتی ہے، لہذا اگر کوئی شہادتین زبان پر جاری کرتا ہے، نماز پڑھتا ہے، روزہ رکھتا ہے، لیکن وہ استغاثے کا بھی قائل ہو تو اسے کافر سمجھا جاتا ہے؛ کیونکہ وہ خدا کے سوا کسی اور سے درخواست کرکے کفر کی وادی میں داخل ہوگیا ہے۔ جبکہ دیوبندی ایسی بات نہیں کہتے ہیں اور عمل کو ایمان کے لیے شرط نہیں سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ اس سلسلے میں شاہ اسماعیل کا نظریہ ظاہر کرتا ہے۔وہابیت عمل کو ایمان کی ایک شرط سمجھتی ہے، لہذا اگر کوئی شہادتین زبان پر جاری کرتا ہے، نماز پڑھتا ہے، روزہ رکھتا ہے، لیکن وہ استغاثے کا بھی قائل ہے تو اسے کافر سمجھا جاتا ہے؛ کیونکہ وہ خدا کے سوا کسی اور سے درخواست کرکے وادئ کفر میں داخل ہوگیا ہے۔ جبکہ دیوبندی ایسی بات نہیں کہتے ہیں اور عمل کو ایمان کے لیے شرط نہیں سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ اس سلسلے میں شاہ اسماعیل کا نظریہ ظاہر کرتا ہے۔
تکفیری طرز تفکر کی نحوست سے کوئی بھی چاہے وہ شیعہ ہو یا اہل سنت یا مسیحیت یا کوئی اور ہر ایک اسکی زد میں ہے؛ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تکفیری تحریکوں کا مقابلہ کرنے کے لئے دیگر مذاہب میں بھی صلاحیت اور افراد موجود ہیں ہمیں انکے ساتھ ملکر اس فتنے کا مقابلہ کرنا چاہیئے اور ایک دوسرے کی صلاحیتوں کا صحیح طور پر استعمال کرنا چاہئے۔