خلاصہ: خدا پر جناب ابراھیم(علیہ السلام) کو اتنا سکون تھا کہ ان کو آگ میں پھینکا جارہا تھا اور ان کو کسی قسم کو کوئی خوف نہیں تھا۔
ہمیں خدا وراثت میں ملا، عقیدے وراثت میں ملے، نظامِ زندگی وراثت میں ملا بلکہ یوں کہا جائے کہ ہمارا پورا دین ہمیں وراثت میں ملا، کبھی ہم نے سورج چاند اور تارے کو اس نظر سے دیکھا ہے جس نظر سے حضرت ابراہیم(علیہ السلام) نے دیکھا تھا۔
حضرت ابراہیم(علیہ السلام) کا اس ماحول میں یہ کہنا کہ ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا جس خدا نے قرآن میں اس طرح فرمایا:«فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ[سورۂ انعام، آیت:۷۶]میں ڈوب جانے والوں کو دوست نہیں رکھتا»، وہ ہماری طرح نہیں تھے کہ امید، آرزو، خوف، موت، زندگی، کامیابی اور ناکامی جیسے چھوٹے چھوٹے بت دلوں میں بٹھا رکھے ہیں، وہ ایسی طاقتور عظیم الشان ہستی کی تلاش میں تھے کہ جو بے مثال ہو، ہمیشہ باقی رہنے والی جسے ڈوبنے کا خوف نہ ہو جس کو موت نہ آتی ہو جو کمزور نہ ہو جو دلوں کا حال جانتا ہو جو واحد اور مضبوط سہارا۔
جو خدا کو حقیقی معنی میں اپنا سہارا سمجھتا ہے وہ ہی خدا سے یہ سوال کر سکتا ہے: «قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَىٰ[سورۂ بقرہ، آیت:۲۶۰] پروردگار مجھے یہ دکھا دے کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے»، یہ دیکھنے کے بعد حضرت ابراہیم(علیہ السلام) نے اپنے دل کو ایسا مطمئن کر لیا کہ بڑے سے بڑی قربانی کرنے سے دریغ نہ کی۔
Add new comment