خلاصہ: انسان دنیا میں اگر نیک اعمال بجالائے تو آخرت میں اسے فائدہ ہوگا اور اگر گناہ کرے تو اسے خسارہ ہوگا۔
موت برحق ہے اور جب دنیا میں انسان کی زندگی کا اختتام ہوجائے اور انسان دنیا سے آخرت میں منتقل ہوجائے تو اس وقت اپنے کیے ہوئے اچھے اور برے اعمال کا نتیجہ پائے گا، ایسا نہیں ہے کہ آخرت میں جاکر آخرت کی زندگی کے لئے کچھ فراہم کرسکے، بلکہ اسے پہلے سے یعنی اِسی دنیا میں ہی اس فکر، کوشش اور محنت میں رہنا چاہیے تھا کہ آخرت کی ابدی اور خوشحال زندگی کی ضروریات اپنے لیے مہیا کرلیتا۔
اگر وہ دنیا میں رہ کر اپنی حقیقی اور مستقبل والی زندگی جو آخرت میں ہے، اس سے غافل رہا، اپنے واجبات کی ادائیگی نہ کی، حرام کاموں سے پرہیز نہ کی، دنیا کی کھیل کود میں مصروف رہا اور نفسانی خواہشات اور کھوکھلی آرزؤں کو پورا کرنے میں اپنی زندگی جیسا قیمتی سرمایہ تباہ کردیا تو وہ آخرت میں خسارہ ہی خسارہ اٹھائے گا۔
لہذا جیسے انسان دنیا میں رہ کر دنیا کے فائدوں کے اسباب کو وقت سے پہلے فراہم کرتا رہتا ہے اور نقصانات سے بچنے کے اسباب کو بھی وقت سے پہلے مہیا کرتا ہے، اسی طرح بلکہ اس سے کہیں زیادہ توجہ، سعی و کوشش اور جدوجہد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرتے ہوئے جنّت کی پاک و پاکیزہ، نعمتوں سے لبریز اور پرمسّرت زندگی کے لئے نیک اعمال بجالائے اور چھوٹے بڑے سب گناہوں سے ہمیشہ ہرحال میں بالکل پرہیز کرے۔
سورہ بقرہ کی آیت ۲۵۴ میں ارشاد الٰہی ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ"، "اے ایمان والو! جو کچھ ہم نے تمہیں رزق دیا ہے اس میں سے کچھ (راہِ خدا میں) خرچ کرو۔ قبل اس کے کہ وہ دن (قیامت) آجائے کہ جس میں نہ سودے بازی ہوگی، نہ دوستی (کام آئے گی) اور نہ ہی سفارش۔ اور جو کافر ہیں وہی دراصل ظالم ہیں"۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment