خلاصہ: انسان جس طرح دنیا میں دنیاوی کاموں میں وقت سے پہلے فائدے اور نقصان کا خیال رکھتا ہے اسی طرح آخرت کا بھی وقت آنے سے پہلے خیال رکھے۔
انسان فطری طور پر اپنی زندگی کے چھوٹے بڑے کاموں میں اس بات پر پوری طرح توجہ رکھتا ہے کہ فائدوں کو حاصل کرے اور نقصانات سے محفوظ رہے، کیونکہ آدمی طرح طرح کے نقصانات کی زد میں رہتا ہے تو عموماً فائدے اور نقصان کا تعلق آئندے اور مستقبل سے ہوتا ہے اور انسان آنے والے وقت میں فائدہ حاصل کرنے کے لئے پہلے سے ہی محنت کرتا ہے اور نقصان سے بچنے کے لئے پہلے سے ہی کوشش کرتا ہے۔
مثلاً انسان مسلسل محنت و مزدوری اور پیسہ کمانے میں مصروف رہتا ہے اور اپنے روزگار کے مطابق انتہائی جدوجہد کرتا ہے تا کہ اپنی کمائی سے فائدے حاصل کرتے ہوئے آنے والے وقت میں اپنی اور اپنے گھروالوں کی خوراک، کپڑے، رہائش اور زندگی کی سب ضروریات فراہم کرسکے، یا مثلاً کھانے پینے کی مقدار اور شرائط کا خیال رکھتا ہے تاکہ کسی بیماری اور نقصان کا شکار نہ ہوجائے۔ لہذا انسان کو عموماً فائدہ حاصل کرنے اور نقصان سے بچنے کے لئے، بنیادی اسباب کی فراہمی کا، وقت سے پہلے خیال رکھنا پڑتا ہے اور اکثر ایسا نہیں ہے کہ مسلسل غفلت میں وقت گزارتا رہے اور ضرورت یا نقصان کے عین موقع پر بنیادی اسباب کو فراہم کرسکے۔ اگر پہلے سے اسباب کو فراہم کرنے کی کوشش نہیں کرے گا تو ضرورت یا نقصان کے وقت پر اسے نقصان کا ہی سامنا کرنا پڑے گا۔
انسان کے لئے آخرت کی مثال اسی طرح ہے۔ حضرت امیرالمومنین نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں: "إِنَّ الْيَوْمَ عَمَلٌ وَلاَ حِسَابَ، وَغَداً حِسَابٌ، وَلاَ عَمَلَ"، "یقیناً آج عمل (کا موقع) ہے اور حساب نہیں ہے، اور کل حساب ہوگا اور عمل (کا موقع) نہیں ہوگا"۔ [نہج البلاغہ، خطبہ ۴۲]
* نہج البلاغہ، خطبہ ۴۲۔
Add new comment