خلاصہ: انسان اس بات پر غور کرے کہ اس کا امام اور پیشوا کون ہے اور وہ اسے کس طرف بلا رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے امامت کا مقام ایسا بلند و اعلیٰ مقام ہے کہ امام کو معصوم ہونا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہ اِس مقام کے سراسر منافی اور مخالف ہے، اسی لیے گنہگار شخص امام نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ اپنے ربّ کا نافرمان ہے۔ البتہ بہت سارے پیشوا اور رہنما ایسے ہیں جو لوگوں کو اپنی مرضی کے بنائے ہوئے دین و مذہب اور من گھڑت عقائد کی طرف لے جاتے ہیں، مگر یہ گمراہ پیشوا ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی صراط مستقیم کو چھوڑ کر نیا راستہ بنا لیا، وہ خود تو پہلے سے گمراہ تھے اور پھر اپنی شیطانی خواہشات کے مطابق بنائے ہوئے عقائد اور اعمال کے ذریعے لوگوں کو بھی گمراہی کے گڑھے میں دھکیل دیتے ہیں۔
سورہ قصص کی آیت ۴۱ میں فرعون اور اس کی فوجوں کو "ائمہ" کہا گیا ہے جو لوگوں کو آگ کی طرف بلاتے ہیں، اس سے پچھلی آیت اور بعد والی آیت میں دنیا و آخرت میں ان کی سزا اور ان کا انجام بتایا گیا ہے، آیات۴۰ سے ۴۲ تک ارشاد الٰہی ہے: "فَأَخَذْنَاهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ . وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا يُنصَرُونَ . وَأَتْبَعْنَاهُمْ فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةً وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ هُم مِّنَ الْمَقْبُوحِينَ"، "سو ہم نے اسے اور اس کی فوجوں کو پکڑا اور سمندر میں پھینک دیا تو دیکھو ظالموں کا کیسا انجام ہوا؟ اور ہم نے انہیں ایسا پیشوا قرار دیا ہے جو (لوگوں کو) آتش (دوزخ) کی طرف بلاتے ہیں اور قیامت کے دن ان کی کوئی مدد نہ کی جائے گی۔ اور ہم نے اس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگا دی ہے اور قیامت کے دن قبیح المنظر لوگوں میں سے ہوں گے"۔
لہذا ہر دین و مذہب کے آدمی کو یہ سوچنا چاہیے کہ اس کا پیشوا اسے کس طرف بلارہا ہے؟
Add new comment