اسلام میں کردار کی بہت اہمیت ہے اور اسی پر ساری تعلیماتِ اسلامی کا زور ہے، اسلام میں بدکردار کی کوئی وقعت نہیں ہے چاہے وہ دور رسالت کا ہی کیوں نہ ہو۔
قیامت کے دن انسان تین گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے بعض کے نامۂ اعمال ان کے داہنے ہاتھوں میں ہوں گے اور بعض کے نامہ ٔ اعمال بائیں ہاتھوں میں اور ظاہر ہے کہ دوسرا گروہ مورد عذاب ہو گا اور پہلا گروہ قابل نجات ہو گا لیکن اس کے بعد اس سے بھی بالاتر ایک گروہ سابقین کا ہے جو نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے تھے اور ان کی اکثریت اولین میں سے ہو گی جنہوں نے اسلام کا ساتھ دور غربت میں دیا ہے اور ابتدائی دور میں قربانیاں پیش کی ہیں اسکے بعد کچھ آخری دور کے ہوں گے جن کا زمانہ بعد کا ہے لیکن ان کا کردار اوّلین جیسا ہی ہے اور ان سب کا شمار بھی سابقین ہی میں ہے کہ انہوں نے ایسے ہی کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں جیسے کارہائے نمایاں سابقین اوّلین نے انجام دیئے تھے جسکی جانب اللہ نے قرآن مجید میں اشارہ فرمایا ہے: ثُلَّةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ*وَقَلِيلٌ مِّنَ الْآخِرِينَ[الواقعة،۱۴،۱۳]۔
سابقین اوّلین کا شرف ان کے کردار اور ایثار کی بنا پر ہے، صرف سِن وسال یا سَن اور صدی کی بنا پر نہیں ہے ورنہ اسلام دینِ کردار ہونے کے بجائے دین طول عمر ہو جائے گا۔
Add new comment