قرآن مجید کی آیت کریمہ جسمیں ارشاد ہے:اور تم خود کچھ نہیں چاہ سکتے سوائے اس کے جو اللہ چاہے، بے شک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے، اس سے یہ بھی نتیجہ نکل سکتا ہے کہ خدا بندے کا تابع ہوگیا جبکہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔
یوں تو انسان کو آزاد اور صاحب اختیار بنایا گیا ہے لیکن کچھ اللہ کے بندے ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے ارادہ و اختیار کو عملی طور سے مشیت الہی کا پابند بنا دیا ہے اور اس کی مرضی کے خلاف سوچنے کا بھی ارادہ نہیں کرتے ہیں اور یہی ان کے کردار کا کمال اور ان کی عظمت کا راز ہے.
یہ بات طئے ہے کہ خدا کسی کا تابع نہیں ہے بلکہ ہر ایک چیز اسکی تابع ہے لیکن ذرا قرآن مجید کی اس آیت پر غور فرمائیں:وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا؛اور تم خود کچھ نہیں چاہ سکتے سوائے اس کے جو اللہ چاہے، بے شک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔ [سورة الانسان۳۰]۔ زمخشری اور فخر رازی دونوں نے نقل کیا ہے کہ آیات کریمہ اہلبیت(ع)کی شان میں نازل ہوئی ہیں جب حضرات حسن(ع) وحسین(ع) بیمار ہوئے اور پیغمبر(ص) نے حضرت علی(ع) کو نذر کرنے کی دعوت دی اور انہوں نے مع جناب فاطمہ(س) اور فضہؑ کے تین تین روزہ کی نذر کر لی اور جب شفا کے بعد روزے رکھے تو حضرت علی(ع)تین صاع جَو لے آئے، جناب فاطمہ(س) نے ایک ایک صاع کی پانچ پانچ روٹیاں تینوں دن تیار کیں اور وقت افطار کبھی مسکین، کبھی یتیم اور کبھی اسیر آ گیا اور سب نے اپنی روٹیاں اس کے حوالے کر دیں اور پانی سے افطار کر لیا تیسرے دن پیغمبر(ص) نے یہ حال دیکھا تو پریشان ہوئے اور جبرئیلؑ سوره لے کر نازل ہوئے کہ یہ اہلبیت کے ایثار کی جزا ہے۔
اس مقام پر اہلبیت(ع) کا کمال، مشیت الہی کی پابندی کو قرار دیا گیا ہے اور واقعاً یہی ایک بندے کا کمال کردار ہے کہ وہ اپنے کو اپنے مالک کے حوالے کردے، اس کا یہ مقصد ہر گز نہیں ہے کہ مشیت الہی ان کی مرضی کے تابع ہے کہ خدا بندے کا تابع نہیں ہوسکتا ورنہ خدائی ختم ہو جائے گی، یہ اور بات ہے کہ وہ اپنے بندے کی لاج رکھنے کے لئے اس کی مرضی کے مطابق کام انجام دیتا ہے کہ اس بندہ کی مرضی اصل میں مرضیٔ پروردگار ہی ہوتی ہے۔
Add new comment