سیرت ائمہ ہمارے لیے مشعل راه بھی ہے اور تربیت کا منارہ بھی، ماه رمضان میں ہمیں اپنے چھوٹے چھوٹے اقدامات پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
بالخصوص ماه رمضان میں امام سجاد(ع) اپنے یہاں موجود غلاموں کے حرکات و سکنات پر نظر رکھتے ہوئے انہیں ایک جگہ لکھ کر ماه رمضان کے آخر میں انکے حوالے کردیتے تھے، غلام اپنی غلطیاں دیکھ کر حیرت میں پڑجاتے تھے لیکن امام(ع) انہیں تنبیہ کرنے کے بجائے انہیں اپنے پاس بٹھاکر کہتے تھے کہ کہو: اے علی بن الحسین جیسا کہ آپ نے ہمارے اعمال لکھے ہیں، آپ نے ہماری غلطیاں لکھ دی ہیں، آپ نے ہمارے اعمال پر نظر رکھی ہے، آپ نے ہمارے چھوٹے بڑے اعمال کو محفوظ کیا ہے، جان لو کہ اللہ تعالٰی نے بھی تمہارے سارے چھوٹے بڑے اعمال کو لکھ رکھا ہے.....جس طرح تم خدا سے معافی کی توقع رکھتے ہو ویسے ہی دوسرے بھی تم سے معافی کے خواہاں ہیں....
ان کلمات کے بعد، امام سجاد(ع) عید الفطر کے دن اپنے تمام غلاموں کو آزاد کردیا کرتے تھے۔
اسی روایت میں آگے چل کر حضرت سیدالساجدین امام سجاد(ع) سے روایت ہے کہ:کسی نے امام سجاد(ع) سے پوچھا: اے فرزند رسول اللہ (ص) کیف اصحبت؟ آپ کی صبح کیسی رہی؟ (آپ نے دن کا آغاز کیسے کیا؟)امام(ع) نے فرمایا: اصْبَحْتُ مَطْلُوباً بِثَمانِ خِصالٍ؛ میں نے صبح اس حالت میں کی کہ جب میں آٹھ افراد کا مقروض ہوں، اور وہ مجھ سے ہر دن آٹھ چیزیں مانگتے ہیں، اور وہ مجھے اپنے پاس بلاتے رہتے ہیں:۱- اللہ تعالیٰ مجھ سے فرائض کا مطالبہ کرتا ہے۔۲- پیغمبر اکرم (ص) اپنی سنّت پر عمل کرنے کا مطالبہ فرماتے ہیں۔۳۔عورتیں اور بچے ، نان و نفقہ اور اخراجاتِ زندگی کا مطالبہ کرتے ہیں۔۴- نفس شہوت کا طالب ہوتاہے۔۵- شیطان، نافرمانی اور گناہ کا خواہاں ہوتا ہے۔۶- اعمال لکھنے والے فرشتے چاہتے ہیں کہ ایمانداری اور سچائی کے راستے پر چلوں۔۷- ملکالموت،میری روح اور جان چاہتا ہے۔۸. قبر مجھ سے میرا بدن مانگتی ہے۔اور میں ان آٹھ قرض خواہوں کے درمیان اپنے آپ کو ذمہ دار بھی مانتا ہوں اور خود کو کمزور و لاچار بھی پاتا ہوں۔
.............
منابع:
1-بحارالانوار، ج46، ص69، ب5، ح42
2- امالی طوسی، ص641، م33
3- جامع الاخبار،ص 90
Add new comment