خلاصہ: حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) نے شام میں جو خطبہ ارشاد فرمایا، اس میں اہل بیت (علیہم السلام) کو اللہ کی طرف سے عطا ہونے والی چھ چیزوں میں سے پانچویں چیز شجاعت کو گردانا، یہ مضمون شجاعت اہل بیت (علیہم السلام) کے سلسلہ میں دوسرا مضمون ہے، جس میں حضرت امام حسن، حضرت امام حسین اور حضرت امام سجاد (علیہ السلام) کی شجاعت کا مختصر تذکرہ ہوا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے شام میں یزید اور شامیوں کے سامنے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس میں اللہ کی حمد و ثنا اور دنیا کی پستی کو بیان کرنے اور آخرت کے لئے نیک اعمال بجالانے کا حکم دینے کے بعد ارشاد فرمایا: "أَيُّهَا النَّاسُ أُعْطِينَا سِتّاً وَ فُضِّلْنَا بِسَبْعٍ. أُعْطِينَا الْعِلْمَ وَ الْحِلْمَ وَ السَّمَاحَةَ وَ الْفَصَاحَةَ وَ الشَّجَاعَةَ وَ الْمَحَبَّةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ"[1]، "اے لوگو! ہمیں چھ (صفات) عطا ہوئیں اور سات چیزوں کے ذریعے ہمیں فضیلت دی گئی۔ ہمیں (اللہ کی طرف سے) علم، حلم، سماحت، فصاحت، شجاعت اور مومنوں کے دلوں میں محبت عطا ہوئی ہے"۔ اس مضمون میں ان چھ عطیات میں سے پانچویں صفت شجاعت کی مختصر تشریح حضرت امام حسن، امام حسین اور امام سجاد (علیہم السلام)کی زندگی سے پیش کی جارہی ہے۔
مقدمہ: معاشرتی اور ظاہری میدان میں شجاعت کے نمونے کثرت سے پائے جاتے ہیں، لیکن اس سے زیادہ اہم وہ شجاعت ہے جو نفس سے جنگ کرنے کے محاذ پر نمودار ہوتی ہے۔ اگر انسان کے نفس میں قلبی طاقت اور روح کی شجاعت ظاہر ہوجائے اور نفس کی حرام و ناجائز خواہشات کے مقابلہ میں شجاعانہ پائداری اختیار کرے تو وہ شخص شجاعت اور قلبی طاقت کے بلندترین مقام تک پہنچ گیا ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں: " أشجَعُ النّاسِ مَن غَلَبَ هَواهُ [2]"، "لوگوں میں سے سب سے زیادہ شجاع وہ شخص ہے جو اپنی ہواوہوس پر غلبہ پاگیا"۔
شجاعت کی قسمیں: شجاعت کی تین قسمیں ہیں: جنگی، اخلاقی اور عقلی۔
جنگی شجاعت یہ ہے کہ خونی مقابلہ میں جہاں مارنے، قیدی ہونے اور شکست کھانے جیسے مسائل درپیش ہوں وہاں انسان نہ ڈرے، جیسا کہ مختلف معاشروں میں دکھائی دیتا ہے کہ بعض لوگ مقامات بالا کی ہیبت سے ڈرنے کے بغیر زندگی بسر کرتے ہیں، یعنی اپنے خوف پر غالب ہوگئے ہیں۔
اخلاقی شجاعت یہ ہے کہ انسان اپنے وجود کے اندرونی حیوانی طاقتوں کے ابھرنے کے سامنے ثابت قدمی اور پختہ ارادہ کرلے، مثلاً اگر انسان کا نفس کسی کی غیبت کرنا چاہے یا کسی کے مال یا ناموس میں خیانت کرنا چاہے تو انسان، نفس کی اس بُری خواہش کے مقابلے میں پائداری اور مزاحمت کرے۔
عقلی شجاعت یہ ہے کہ بے بنیاد تقلید اور من گھڑت عقیدوں سے مقابلہ کیا جائے۔[3] اگر اہل بیت (علیہم السلام) کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ یہ تینوں طرح کی شجاعتیں ان حضراتؑ کی زندگی کے قدم قدم پر چراغ ہدایت اور منار نور کی طرح جگمگاتی ہیں۔
سابقہ مضمون میں رسو ل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی شجاعت کو مختصر طور پر بیان کیا گیا اور اس مضمون میں حضرت امام حسن مجتبی، امام حسین اور امام سجاد (علیہم الصلاۃ والسلام) کی شجاعت پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام) کی شجاعت:آپؑ کی شجاعت کی ایک مثال جنگ جمل کے فتنہ کا خاتمہ کرنا ہے، جب آپؑ اپنے باپ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے ہمرکاب ہوکر محاذ جنگ میں آگے آگے جنگ کرتے رہے، حضرت علی (علیہ السلام) کے بہادر اور شجاع اصحاب سے بھی زیادہ دشمن سے جنگ کرتے رہے اور قلب لشکر پر شدید حملے کرتے رہے۔ آپؑ نیزہ پکڑے ہوئے اونٹنی کی طرف حملہ آور ہوئے اور جب اسے نیزہ مار کر واپس پلٹے تو اونٹنی کا خون نیزہ پر لگا ہوا تھا، آپؑ کے اس شجاعت سے لبریز حملہ کے ذریعہ جنگ جمل کے فتنہ کا خاتمہ ہوگیا اور حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے لشکر حق کو فتح نصیب ہوگئی۔ آپؑ کا جنگ صفین کے موقع پر معاویہ سے جنگ کرنے کے لئے لشکر کو تیار کرنے میں اہم کردار تھا۔ آپؑ نے کوفہ کے لوگوں کو پرجوش خطاب کے ذریعہ حضرت علی (علیہ السلام) کے ہمرکاب ہو کر جہاد کرنے اور اسلام کے خائنین اور دشمنوں کی نابودی کی دعوت دی۔[4] آپؑ اللہ کی راہ میں جان نثار کرنے کے لئے اتنے تیار تھے کہ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ امام حسن اور امام حسین (علیہما السلام) کو جنگ میں پیشقدمی سے روک لیں تا کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسل ان دو حضراتؑ کے شہید ہوجانے سے ختم نہ ہوجائے۔[5] مگر آپؑ کے دور امامت میں جبکہ امیرالمومنین (علیہ السلام) کی شہادت ہوگئی تھی، اصحاب کے ایمان کی کمزوری، منافقین کی منافقت، معاویہ کا پیسہ سے لوگوں کو امامؑ سے الگ کرلینا اور اس طرح کی دیگر رکاوٹیں باعث بنیں کہ آپؑ معاویہ سے جنگ نہ کرپائیں، ایسے حالات میں غیر معصوم انسان جذبات یا شکست کا شکار ہوکر غیر معقول اور اپنے نقصان کے کام کربیٹھتا ہے، لیکن آپؑ جو صاحب مقام امامت و عصمت تھے، آپؑ نے معاویہ کے سامنے ایسی حکمت عملی اور حُسن تدبیر اختیار کی جس سے دین اسلام کو بھی محفوظ کرلیا، پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام کو محو ہونے سے بچا لیا، معاویہ کی شیطانی پالیسیوں کی بھی ایسی روک تھام کرلی کہ وہ اپنے ناپاک عزائم میں ناکام ہوگیا، جبکہ معاویہ آپؑ کی شجاعت اور بہادری کے بارے میں کہتا تھا کہ وہ اس کا بیٹا ہے جو جدھر بھی جاتا، موت بھی ہمیشہ اس کے تعاقب میں رہتی تھی۔[6] یہ کنایہ ہے اس بات سے کہ حضرتؑ کو دشمن سے کوئی خوف نہیں تھا اور ہرگز موت سے نہیں ڈرتے تھے۔
حضرت امام حسین (علیہ السلام) کی شجاعت:حضرت امام حسین (علیہ السلام) کی شجاعت صرف میدان کربلا میں رونما نہیں ہوئی، بلکہ آپؑ کی شجاعت اور بہادری بچپن سے ہی منظر عام پر آتی رہی۔ آپؑ نے خلیفہ ثانی کو جب منبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا تو اسے اترنے کا حکم دیا۔ جنگ جمل میں حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) نے جب اپنے لشکر کو صفوں میں تیار کرلیا تو اپنے لشکر کے دائیں طرف والوں کی سربراہی حضرت امام حسن (علیہ السلام) کو دی اور بائیں طرف کی سربراہی حضرت امام حسین (علیہ السلام) کو دی[7]۔ نقل ہوا ہے کہ لشکر کا صفین کی طرف روانہ ہونے سے پہلے، حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) اور امام حسن (علیہ السلام) کے بعد حضرت امام حسین (علیہ السلام) کھڑے ہوئے اور کوفہ کے لوگوں کو شامیوں سے جنگ کرنے کے لئے ترغیب اور جوش و خروش دلانے کے لئے تقریر کی اور غرّا (فصیح و بلیغ) خطبہ ارشاد فرمایا۔[8] جنگ صفین میں لشکر معاویہ نے جو نہر پر قبضہ کرلیا تھا، حضرت امام حسین (علیہ السلام) کچھ افراد کے ساتھ مل کر گئے تو اس کے لشکر سے جو جھڑپیں پیش آئیں، اس کے بعد انہیں نہر سے دور کردیا اور نہر پر قبضہ کرلیا۔ نیز جو آپؑ نے معاویہ کے خط کا جواب تحریر فرمایا، آپؑ کی شجاعت کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں سے کچھ لہریں ہیں جو شجاعت انسانیت کی ساحل پر آپڑی ہیں۔ پھر میدان کربلا میں آپؑ کی مختلف طرح کی شجاعتیں اس طرح رونما ہوئیں کہ چشم فلک نے عاشورا سے پہلے اتنی شجاعتوں کو اتنے محدود وقت میں اکٹھا نہیں دیکھا تھا، پیاسوں کی صدائے العطش کا گونجنا، علی اصغرؑ شیرخوار کے کان سے کان تک تین شعبہ نیزے کا گزر جانا، علی اکبرؑ کے کلیجہ میں برچھی کا پیوست ہونا، عباسؑ کے دونوں بازوؤں کا قلم ہونا، قاسمؑ ابن الحسنؑ کا شہد سے زیادہ میٹھی شہادت کے جام کو نوش کرنا اور اصحاب کا یکے بعد دیگرے لبریز اخلاص کے ساتھ شہید ہونا، ادھر سے خیموں میں مستورات کے قیدی ہونے اور ظلم سہنے سے باخبر ہونا، دشمن کے طعنوں کو برداشت کرنا اور آخرکار خود فوج اشقیا٫ سے ایسی شدید جنگ کرتے ہوئے ان کے سینکڑوں افراد کو تہ تیغ کرکے واصل جہنم کرنا، سیدالشہدا٫ (علیہ السلام) کی شجاعت پر اسی طرح بولتے ہوئے ثبوت ہیں جیسے صبح صادق میں طلوع کرتے ہوئے سورج سے پھوٹنے والی شعائیں اپنے سرچشمہ نور کی نورانیت کی گواہی دیتی ہیں۔
حضرت امام سجاد (علیہ السلام) کی شجاعت: آپؑ نے کوفہ میں ابن زیاد کی محفل میں اور شام میں یزید کی محفل میں جو شجاعت دکھائی، سیاسی لحاظ سے میدان جنگ کی شجاعت سے کم نہیں تھی۔ آپؑ نے قیدی ہونے کے باوجود دشمن وقت کے سامنے ایسا کردار ادا کیا جس سے حضرت امام حسین (علیہ السلام) اور شہدا٫ کربلا کی شہادت، صبح قیامت تک حیات پاگئی، اگر آپؑ کے وہ خطبے نہ ہوتے تو سید الشہدا(علیہ السلام) کی شہادت چھپ کر رہ جاتی اور اتنی عظیم قربانی ضائع ہوجاتی۔ آپؑ نے اپنے معجزہ خیز خطبوں اور فصیح و بلیغ بیانات کے ذریعے حق کو واضح کرتے ہوئے سب پر حجت تمام کردی اور غدار اور چالباز حکمرانوں کی فریب کاریوں کو برملا اور بے نقاب کردیا، اہل بیت (علیہم السلام) کا دفاع کیا اور دشمن کو رسوا کردیا جس سے لوگوں میں اسلامی اور انقلابی حیات کی لہر دوڑ گئی۔ آپؑ نے دشمن کے سامنے اس عالم میں خطبے پڑھے جبکہ آپؑ کے ساتھ مردوں میں سے کوئی حامی و مددگار موجود نہیں تھا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ آپؑ اپنی حیات مبارکہ کی ہر طرح کی صورتحال میں شجاعانہ طریقوں اسی طرح دین کی حفاظت کرتے رہے اور لوگوں کو بیدار کرتے رہے۔
نتیجہ: اہل بیت (علیہم السلام) کا ہر ایک ایک فرد اپنے زمانے کے تمام لوگوں سے ہر صفت میں افضل، بہتر اور برتر ہے۔ امام سجاد (علیہ السلام) اپنے خطبہ میں شامیوں سے اپنی شجاعت کو ان چیزوں میں سے شمار کررہے ہیں جو اللہ تعالی نے اہل بیت (علیہم السلام) کو دی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل بیت (علیہم السلام) جیسے دیگر صفات میں لوگوں سے افضل ہیں، شجاعت میں بھی لوگوں سے افضل ہیں۔ نیز واضح ہوگیا کہ شجاعت کے معنی صرف یہ نہیں کہ میدان جنگ میں تلوار چلائی جائے، بلکہ مختلف حالات کے تقاضوں کے مطابق شجاعت کی ترجمانی ہوتی ہے، لہذا ہر معصومؑ نے اپنے دور میں مختلف طرح کی شجاعتیں دکھائی ہیں جو اخلاص نیت، حکمت عملی اور حُسن تدبیر پر قائم تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] بلاغة الامام علي بن الحسين (ع(، جعفر عباس حائری، ص96۔
[2] ابن بابویه، محمد بن علی، من لا یحضره الفقیه، قم، جامعه مدرسین، پہلی طبع، 1413ق، ج4، ص394۔ معاني الأخبار : ج1، ص195.
[3] سابقہ حوالہ سے اقتباس اور کچھ کمی بیشی کے ساتھ۔
[4] نصر بن مزاحم، وقعة صفین، ص 113.
[5] ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج 11، ص 25.
[6] ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج 4، ص 73.
[7] مفید، محمد بن نعمان، الجمل، ص 348۔ ابن عساکر، تاریخ مدینه دمشق، ج 14، ص 187۔
[8] وقعه صفین، ص 114، 115؛ شرح نهج البلاغه ابن ابی الحدید، ج 3، ص 186.
Add new comment