دنیا دار امتحان ہے اور امتحان والی جگہ پر دیر تک بیٹھنا کسی صورت مناسب نہیں ہے، پرچہ حل کیجئے اور چلتے پھرتے نظر آئیئے۔
شہد کا ایک قطرہ زمین پر گر پڑا ، ایک چھوٹی سی چیونٹی آگئی اور اسے چکھا اور جانے لگی ، لیکن شہد کا ذائقہ اس کو حیرت انگیز لگا ، لہذا وہ واپس پلٹ پڑی اور دوسرا گھونٹ بھی پی لیا ...
اس نے دوبارہ جانے کا فیصلہ کیا ، لیکن اسے لگا کہ شہد کے کنارے سے کھانا کافی نہیں ہے اور اسے اصلی ذائقہ بھی نہیں ملا ، لہذا اس نے خود کو شہد کے بیچوں بیچ پھینکنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ لطف اٹھا سکے ...
چیونٹی، شہد میں ڈوبی لطف اٹھا رہی تھی ... لیکن (افسوس) اس سے باہر نہیں نکل سکی ، اس کی ٹانگیں خشک اور زمین سے لپٹ گئیں جو حرکت نہیں کرسکتی تھیں ... اسی کربناک صورتحال میں پڑی رہی.... آخر مرنے کی نوبت آپہنچی ...
دنیا، شہد کے ایک بڑے قطرہ کے سوا کچھ نہیں ہے! اس کی تھوڑی سی مقدار پینے کے بعد آگے بڑھ جانے والا نجات پائے گا ، اور جو اس کی مٹھاس میں ڈوب جائے گا اسکی ہلاکت یقینی ہے... اس ضمن میں کیا ہی فکر انگیز بیان ہے امیرالمؤمنین(ع) کا: دَارٌ بِالْبَلَاءِ مَحْفُوفَةٌ وَ بِالْغَدْرِ مَعْرُوفَةٌ؛ لَا تَدُومُ أَحْوَالُهَا وَ لَا يَسْلَمُ نُزَّالُهَا؛ أَحْوَالٌ مُخْتَلِفَةٌ وَ تَارَاتٌ مُتَصَرِّفَةٌ؛ الْعَيْشُ فِيهَا مَذْمُومٌ وَ الْأَمَانُ مِنْهَا مَعْدُومٌ؛ وَ إِنَّمَا أَهْلُهَا فِيهَا أَغْرَاضٌ مُسْتَهْدَفَةٌ، تَرْمِيهِمْ بِسِهَامِهَا وَ تُفْنِيهِمْ بِحِمَامِهَا. یہ ایک ایسا گھرہے جو بلائوں میں گھرا ہوا ہے اور اپنی غداری میں مشہور ہے۔نہ اس کے حالات کو دوام ہے اور نہ اس میں نازل ہونے والوں کے لئے سلامتی ہے۔اس کے حالات مختلف اوراس کے اطوار بدلنے والے ہیں۔اس میں پرکیف زندگی قابل مذمت ہے اور اس میں امن و امان کا دور دورہ پتہ نہیں ہے۔اس کے باشندے وہ نشانے ہیں جن پر دنیا اپنے تیر چلاتی رہتی ہے اور اپنی مدت کے سہارے انہیں فنا کے گھاٹ اتارتی رہتی ہے۔[ خطبه 226 نهج البلاغه]
Add new comment