توجہ رہے کہ ہم کہیں کسی وجہ سے رشتہ داری یا جان کی پہچان کی بنا پر کسی کا حق ضائع نہ کربیٹھیں۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّـهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّـهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا ۚ وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا [سورة النساء۱۳۵]اے ایمان والو! مضبوطی کے ساتھ انصاف کے علمبردار ہو جاؤ۔ اور محض اللہ کے لئے گواہی دینے والے بنو۔ خواہ تمہیں اپنے یا والدین کے اور اپنے قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہی گواہی دینا پڑے۔ وہ (جس کے خلاف گواہی دی جا رہی ہے) چاہے امیر ہو چاہے فقیر ہو بہرحال اللہ ان دونوں کا تم سے زیادہ خیرخواہ ہے پس اس طرح خواہش نفس کی پیروی نہ کرو کہ حق سے ہٹ جاؤ۔ اور اگر تم نے ہیرپھیر کیا یا (حق سے) منہ موڑا تو بے شک جو کہ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔
پیغام:انسان کو ہمیشہ اپنی ذات اور اپنے عزیز و اقارب کے مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے، زندگی کے ہر شعبہ میں عدل و انصاف سے کام لینا چاہیے ، انبیاء کرام کے آنے کا مقصد عدل و انصاف کو معاشرہ میں قائم کرنا تھا، سورہ مائدہ کی آٹھویں آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دشمن کے بارے میں بھی عدل و انصاف سے کام لینا چاہیے۔امام علیؑ سے منقول ہے کہ خداوندعالم نے زمین و آسمان کو پایۂ عدالت پر استوار کیا ہے۔
Add new comment