خلاصہ: انسان کو لین دین میں توجہ کرنی چاہیے، مثلاً سود کا عام کاروبار سے فرق ہے تو ان کے فرق کو جاننے کے ذریعے انسان حرام خوری سے بچے۔
سودخور سود کو تجارت جیسا کہہ کر کھاتے تھے، وہ تجارت اور سود میں کوئی فرق نہیں سمجھتے تھے اور سود کو تجارت کی طرح جائز سمجھتے ہیں، سورہ بقرہ کی آیت ۲۷۵ میں ارشاد الٰہی ہے: "ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا"، "یہ اس لئے ہے کہ وہ قائل ہیں کہ تجارت بھی تو سود کی مانند ہے"۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے جائز اور ناجائز کو بیان فرما دیا ہے، ارشاد الٰہی ہے: "وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا"، "حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام کیا ہے"۔ یعنی ان دونوں کے درمیان واضح فرق پایا جاتا ہے اور ان کا آپس سے موازنہ نہیں کرنا چاہیے۔
البتہ قرآن کریم نے مزید وضاحت نہیں فرمائی، شاید اس لیے کہ ان کا باہمی فرق واضح ہے، کیونکہ:
۱۔ عام خرید و فروخت میں دونوں شخص برابر طور پر نفع و نقصان کی زد میں ہوتے ہیں، کبھی دونوں کو نفع ہوتا ہے اور کبھی دونوں کو نقصان ہوتا ہے، کبھی ایک کو نفع ہوتا ہے اور دوسرے کو نقصان ہوتا ہے، حالانکہ سود والے معاملہ میں سودخور کو کبھی بھی نقصان نہیں ہوتا اور سب ممکنہ نقصانات دوسرے آدمی کے ذمے ہوتے ہیں، اسی لیے سودخور ادارے دن بدن زیادہ وسیع اور مالدار بن جاتے ہیں اور کمزور لوگوں کو ہونے والے نقصانات کے بدلے میں سودخور افراد کا مال مسلسل بڑھتا رہتا ہے۔
۲۔ عام کاروبار اور خرید و فروخت میں دونوں شخص فروخت ہونے والی چیز کو فراہم کرنے اور استعمال کرنے میں حصہ دار ہوتے ہیں، لیکن سودخور کی ایسی کوئی سرگرمی ہوتی ہی نہیں۔
۳۔ سودخوری کے پھیلاؤ اور بڑھنے کی وجہ سے سرمایہ غلط طریقے سے آتا ہے اور معاشیات کی بنیادیں کھوکھلی ہوجاتی ہیں، جبکہ معاشیات پر ہی سماج کا دارومدار ہے، لیکن صحیح کاروبار کے ذریعے سرمایہ صحیح طریقے سے اور صحیح راستے میں استعمال ہوتا ہے۔
۴۔ سودخوری مختلف طبقات کی ایک دوسرے سے دشمنی، عداوت اور جنگ کا باعث بنتی ہے، حالانکہ صحیح کاروبار جنگ و عداوت کو جنم نہیں دیتا۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی۔
اصل مطالب ماخوذ از: انوار هدايت، آیت اللہ مکارم شیرازی، ص۴۱۰۔
Add new comment