رکوع کی حالت میں انگوٹھی کا واقعہ، علمائے اہلسنّت کی زبانی

Wed, 02/26/2020 - 18:25

خلاصہ: آیت ولایت کی روشنی میں حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی وہ عظیم فضیلت، اہلسنّت علماء کی زبانی بیان کی جارہی ہے جو آپؑ نے رکوع کی حالت میں سائل کو انگوٹھی دی اور آیت ولایت نازل ہوئی۔

رکوع کی حالت میں انگوٹھی کا واقعہ، علمائے اہلسنّت کی زبانی

سورہ مائدہ کی آیت ۵۵ میں ارشاد الٰہی ہورہا ہے: "إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ"، "اے ایمان والو! تمہارا حاکم و سرپرست اللہ ہے۔ اس کا رسول ہے اور وہ صاحبان ایمان ہیں۔ جو نماز پڑھتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں"۔

اس آیت میں جو روایات نقل ہوئی ہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے: ایک دن حضرت امام علی (علیہ السلام) مسجدالنبی (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) میں نماز میں مصروف تھے، کوئی ضرورتمند شخص مسجد میں داخل ہوا اور اپنی خواہش بیان کی، کسی نے اسے کچھ نہ دیا۔ حضرت امام علی (علیہ السلام) جو اُس وقت رکوع کی حالت میں تھے، ہاتھ سے اس ضرورتمند آدمی کو اشارہ کیا، اس نے آکر آپؑ کی انگلی مبارک سے انگوٹھی اتار لی اور مسجد سے چلا گیا، اس وقت یہ آیت کریمہ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) پر نازل ہوئی۔
یہ بات چالیس سے زائد روایات کا خلاصہ ہے جو اس آیت کے بارے میں بیان ہوئی ہے۔ علامہ اہلسنّت فخررازی نے نقل کیا ہے: روایت ہوئی ہے کہ عبداللہ ابن سلام نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! میں نے دیکھا کہ علیؑ نے رکوع کی حالت میں اپنی انگوٹھی کسی محتاج کو صدقہ دیدی (تو علیؑ کی ولایت کے بارے میں اس آیت کے نزول  کی وجہ سے) ہم علیؑ کی ولایت کو تسلیم کرتے ہیں۔ [التفسیر الکبیر، ج۱۲، ص۲۶]
دوسری روایت جو جناب ابوذر غفاری سے علامہ اہلسنّت فخررازی نے نقل کی ہے، زیادہ تفصیل کے ساتھ ہے، جناب ابوذر کا کہنا ہے:
میں نے ایک دن رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ) کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی، تو کسی سائل نے مسجد میں سوال کیا تو کسی نے اسے کچھ نہ دیا تو سائل نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھایا اور کہا: بارالٰہا! تو گواہ رہ کہ میں نے رسولؐ کی مسجد میں سوال کیا تو مجھے کسی شخص نے کوئی چیز نہیں دی" اور علیؑ رکوع کی حالت میں تھے،تو آپؑ نے اپنے دائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی سے اسے اشارہ کیا جبکہ اس میں انگوٹھی تھی تو سائل آگے آیا یہاں تک کہ اس نے انگوٹھی اتار لی نبی (صلّی اللہ علیہ وآلہ) کی نظروں کے سامنے، تو آنحضرتؐ نے فرمایا: "بارالہٰا یقیناً میرے بھائی موسی نے تجھ سے سوال کیا تو کہا: اے میرا ربّ، میرا سینہ کشادہ کر، اور میرے کام کو میرے لیے آسان کر، اور میری زبان کی گرہ کھول دے، تا کہ لوگ میری بات سمجھ سکیں، اور میرے خاندان میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا، اس کے ذریعے سے میری کمر کو مضبوط بنا، اور اسے میرے کام میں شریک بنا"  اور تو نے (ان کی دعا کو مستجاب کرتے  ہوئے) قرآن ناطق نازل کیا: "ہم تمہارے بازو کو تمہارے بھائی کے ذریعہ سے مضبوط کریں گے اور ہم تم دونوں کو غلبہ عطا کریں گے" تو بارالہٰا، میں محمد تیرا نبی اور برگزیدہ ہوں تو میرے سینے کو کشادہ کردے اور میرے کام کو میرے لیے آسان کر، اور میرے خاندان میں سے میرے لیے وزیر قرار دے، علی کو، ان کے ذریعے سے میری کمر کو مضبوط بنا۔
ابوذر نے کہا: تو اللہ کی قسم! رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ) نے ابھی یہ بات ختم نہیں کی تھی کہ جبرئیل نازل ہوئے تو کہا: اے محمد، پڑھیں: "إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ..."۔

* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
* مطالب ماخوذ از: آیات ولایت در قرآن، آیت اللہ مکارم شیرازی، ص۸۳۔

تبصرے

Submitted by ضامن نقوی on

ميرا اک سوال نماز کا اصول ھے ھ کہ جب ھم نيت کرکے تکبر تحريم اللہ اکبر کہ کر نماز ميں داخل ھوجاتے ھيں تو نماز کے ارکان کے علاوہ ھم کوئی دنياوی کام نہيں کرسکتے۔جب تک سلام نہ پھير ليں۔۔۔۔۔نماز ميں ادھر ادھر بھی نہيں ديکھ سکتے کہت ھے نماز ٹوٹ جاتی ھے۔جيسے حالت روزا ميں کچھ کھانے سے روزا ٹوٹ جاتا ھے۔وضاحت فرما ديں ۔۔۔اللہ مجھے معاف کرے ۔کائنات کے دو بڑوں کے بارے ميں سوال کررھا۔ليکن مولا علی کا ھی قول ھے دين سے متعلق جو چاھے پوچھو۔تب کی جسارت کی۔اللہ مجھے معاف کرے۔

syed leyaquat ali's picture
Submitted by syed leyaquat ali on

فخر الدین رازی اور بعض دوسرے متعصبین نے اعتراض کیا ہے کہ حضرت علی(علیه السلام) تو نماز میں مخصوص توجہ رکھتے تھے اور پر وردگار سے مناجات میں مستغرق رہتے تھے یہاں تک کہ مشہور ہے کہ ایک مرتبہ حالتِ نماز میں تیر کا پھل آپ کے پاوٴں سے نکالا گیا اور آپ متوجہ نہیں ہوئے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ آپ نے سائل کی آواز سن لی اور اس کی طرف متوجہ ہو گئے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے اس نکتہ سے غافل ہیں کہ سائل کی آواز سننا اور اس کی مدد کرنا اپنی طرف متوجہ ہونا نہیں ہے کہ بلکہ عین خدا کی طرف توجہ ہے ۔ حضرت علی (علیه السلام) حالت نمازمیں اپنے آپ سے غافل تھے نہ کہ خدا سے ۔ اور ہم جانتے ہیں کہ مخلوقِ خدا سے غفلت اور بیگانگی در اصل خدا سے غفلت اور بے گانگی ہے ۔ زیادہ واضح لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ حالت نماز میں زکوٰة دینا عبادت کے اندر عبادت ہے نہ کہ عبادت کے دورون ایک عمل مباح کی انجام دہی ۔ ایک اور عبارت میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ بات جو روح ِ عبادت سے مناسبت نہیں رکھتی یہ ہے کہ کو ئی شخص عبادت کے دوران مادی اور شخصی زندگی سے مربوط ہو جائے ۔ لیکن ان امور کی طرف متوجہ ہو نا جو رضائے الہٰی کا ذریعہ ہیں روح ِ عبادت کے لئے ساز گار ہیں عبادت کے لئے بلند مرتبے کا باعث ہیں ۔
اس نکتہ کا ذکر بھی ضروری ہے کہ خدا کی طرف توجہ اور استغراق کا یہ مطلب نہیں کہ انسان بے اختیار ہو کر اپنا احساس کھو بیٹھے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مقصد و ارادہ سے اپنی توہ ایسی ہر چیز سے پھیر لیتا ہے جو راہ خدا میں اور خدا کے لئے نہیں ہے ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ فخرالدین رازی کا تعصب یہاں تک آپہنچا ہے کہ اس نے سائل کو حضرت علی (علیه السلام) کے اشارہ کرنے کو کہ وہ خود آکر انگشتری اتار لے ” فعل کثیر“ قرار دیا ہے جو ان کی نظر میں نماز میں درست نہیں ۔ حالانکہ وہ نماز میں ایسے کام انجام دینا جائز سمجھتے ہیں جو اشارہ سے کئی درجہ زیادہ ہیں اور اس کے باوجود وہ نماز کے لئے نقصان وہ نہیں ہیں ۔ یہاں تک کہ حشرات الارض مثلاً سانپ یابچھوکو مارنا ، بچے کواٹھا نا اور بٹھانا یہاں تک کہ شیر خوار بچے کو دودھ پلانے کو تووہ نماز میں فعل کثیر نہیں سمجھتے پھر ایک اشارہ فعل کثیر کس طرح ہو گیا لیکن جب کسی کی دانش مندی طوفانِ تعصب میں پھنس جاتی ہے تو پھر ایسے تعصبات اس کے لئے باعث ِ تعجب نہیں رہتے۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
5 + 5 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 46