نماز کو حقیر سمجھنے کی چند مثالیں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) کی حدیث کے مطابق نماز کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے، اسی لیے جو اسباب اور رکاوٹیں باعث بنتی ہیں کہ آدمی نماز کو حقیر سمجھے، ان کو اس مقالہ میں بیان اور مختصر تشریح کیا ہے۔

نماز کو حقیر سمجھنے کی چند مثالیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) نماز کو اہمیت دینے کے بارے میں فرماتے ہیں: "لا تَتَهاوَنْ بَصَلاتِكَ، فَإنَّ النَّبيَّ (صلى الله عليه وآله وسلم) قالَ عِنْدَ مَوْتِهِ: لَيْسَ مِنّى مَنِ اسْتَخَفَّ بِصَلاتِهِ، لَيْسَ مِنّى، مَنْ شَرِبَ مُسْكِراً، لا يَرِدُ عَلَىّ الْحَوْضَ، لا وَ اللهِ[1]"، "اپنی نماز کو معمولی نہ سمجھنا کیونکہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنی وفات کے وقت فرمایا تھا کہ وہ شخص مجھ سے نہیں جو اپنی نماز کو حقیر سمجھے، وہ شخص مجھ سے نہیں جو نشہآور چیز پئے،خدا کی قسم! وہ حوض کوثر پر میرے پاس نہیں پہنچے گا"۔
امام محمد باقر (علیہ  السلام) کی اس نورانی حدیث کے پیش نظر ضروری ہے کہ نماز کو اہم سمجھنے کے لئے، ان اسباب یا رکاوٹوں کی پہچان کی جائے جو باعث بنتی ہیں کہ آدمی نماز کو حقیر سمجھے:
۱۔ نماز پڑھنے میں تاخیر: "تأخير الصلاة عن أول وقتها لغير عذر" [2]، "نماز کے پہلے وقت سے بلاوجہ نماز میں تاخیر کرنا"
واضح ہے کہ عذر اور وجہ سے مراد وہ ضرورت ہے جس میں اضطرار پایا جاتا ہے جس میں تاخیر نہ کی جاسکے نہ کہ ہر طرح کی وجہ کو شامل ہو۔ عام زندگی میں انسان کے لئے جو کام انتہائی اہمیت کا حامل ہو، نہ صرف آدمی اسے انجام دینے میں تاخیر نہیں کرتا، بلکہ کتنے پہلے سے تیار ہو کر وقت کا انتظار کرتا رہتا ہے کہ اس کام کو بالکل بروقت انجام دے تا کہ جو نقصان تاخیر کرنے سے ہوگا، اس کا شکار نہ ہوجائے۔ نماز میں بھی انسان کو اسی طرح رہنا چاہیے کہ نماز کے لئے، اذان سے  کچھ دیر پہلے تیار ہوجائے تا کہ نماز کے وقت سے تاخیر نہ ہو اور فضیلت کا وقت نکل نہ جائے، کیونکہ اگر بلاوجہ تاخیر کرے گا تو اس نے یقیناً نماز کو حقیر سمجھا اور کسی دوسرے کام کو نماز سے اہم سمجھ لیا، جبکہ یہ اس بات سے بالکل غافل ہے کہ دوسرے کام بھی اگر منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں تو ان میں کامیاب کرنے والا، وہی اللہ ہے جس کی بارگاہ میں جانے میں تاخیر کردی، اس کام میں مدد تو اسی اللہ نے کرنا تھی، جس نے نماز کے لئے بلایا اور بندہ سستی کرتا ہوا، دوسرے کاموں میں مصروف رہا! جتنی حکم کے عین مطابق فرمانبرداری ہوگی اتنا انسان پروردگار کی بارگاہ میں منزل قرب تک پہنچتا جائے گا۔
۲۔ تنہائی میں آداب نماز کا خیال نہ رکھنا: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں: "من أحسن صلاته حين يراه النّاس ثمّ أساءها حين يخلو فتلك استهانة استهان بها ربّه"[3]، "جو شخص نماز کو اچھا پڑھے جب لوگ اسے دیکھ رہے ہیں، اور جب تنہائی میں ہو تو اسے برے طریقہ سے بڑھے تو یہ توہین ہے جس کے ذریعہ اس نے اپنے پروردگار کی توہین کی ہے"۔ لہذا انسان کو غور کرنا چاہیے کہ خلوت و جلوت میں اس کی نماز میں کیا فرق ہے، کیا نماز میں اس کی توجہ نماز کی طرف رہتی ہے یا دیکھنے والوں کی طرف!
۳۔ اذان سے پہلے، نماز کی مقدمات کو فراہم نہ کرنا: انسان اپنی عادی زندگی میں ہی توجہ کرلے کہ جس کام کو اہمیت دیتا ہے اس کے وقت سے پہلے اس کی مقدمات کو فراہم کرلیتا ہے، کون سی ملاقات یا دعوت ہے کہ جس کا وقت پہنچ آیا ہو، لیکن آدمی ابھی کپڑے بدلنے اور تیاری کرنے میں مصروف ہو، نماز کی اہمیت کے پیش نظر نماز کے وقت سے پہلے نماز کے لئے تیار رہنا چاہیے۔
۴۔ معانی کو نہ سیکھنا: ہم جن الفاظ کو روزانہ نماز میں دس بار دہراتے ہیں، ان کے معانی کو نہ سیکھیں، تو کیا یہ نماز کو حقیر سمجھنا نہیں ہے؟ کیسے ممکن ہے کہ آدمی کسی ملک میں تھوڑا عرصہ رہ کر وہاں کے لوگوں کی زبان سے واقفیت حاصل کرلیتا ہے، اور ایک راستے سے ایک دو بار گزر کر اس کا نام اور پتہ جان لیتا ہے، اسی طرح نماز میں الفاظ کے معانی پر توجہ ہونی چاہیے۔ ہم کیسے ان عبادات کا جواب اللہ تعالی کی بارگاہ اقدس میں دے سکتے ہیں، جو بجائے اس کے کہ ہماری عبودیت اور خضوع کی علامت ہوں، ہماری لاپرواہی، تکبر اور حقیر سمجھنے کی علامت ہیں؟ کتنا پیارا جملہ حضرت امام حسین (علیہ السلام)، اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں: " إِلَهِي مَنْ كَانَتْ مَحَاسِنُهُ مَسَاوِيَ فَكَيْفَ لَا تَكُونُ مَسَاوِيهِ مَسَاوِيَ"[4]، "بارالہا جس کی نیکیاں برائی ہوں تو اس کی برائیاں کیسے برائیاں نہ ہوں"۔
۵۔ نماز کے احکام کی تعلیم نہ لینا: آدمی کے لئے جس چیز کی اہمیت ہو اس کے شرائط اور کیفیت کے بارے میں جستجو کرتا ہوا مقصد تک پہنچ جاتا ہے۔ مثال کے طور اگر آدمی نے کسی دفتر میں کام کرنا ہو تو اس دفتر کے تمام شرائط، ضوابط اور قوانین کے بارے میں مختلف سوالات کرکے، سب کو اپنانے کی کوشش کرے گا تا کہ کہیں کسی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہوا، اپنا نقصان نہ کربیٹھے۔ نماز کے احکام اور شرائط کی تعلیم لینا، دنیاوی کاموں کے شرائط سے کہیں بڑھ چڑھ کر اہم ہیں۔ جب آدمی کسی دفتر کے آفیسر کے سامنے کھڑے ہونے اور اس سے گفتگو کرنے میں مختلف اصول کا خیال رکھتا ہے تو انسان کو اس بات کا بھی ادراک ہوجانا چاہیے کہ میں نے نماز پڑھتے ہوئے کائنات کے پروردگار کی بارگاہ میں حاضری دینی ہے، اس مقدس بارگاہ میں کھڑے ہونے، ذکر کرنے، رکوع و سجود کرنے، اور دیگر اعمال کو بجالانے کے احکام کیا ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی حکم کو نہ جانتے ہوئے معبود کی بارگاہ میں بے ادبی ہوجائے۔
۶۔ تیزی سے نماز پڑھنا: اس عبادت کو ایک عادت کی طرح تیزی سے پڑھ دینا، معانی پر توجہ کیے بغیر، اطمینان اور خضوع کے بغیر، نماز کو حقیر سمجھنا ہے۔ مرحوم علامہ شہید مرتضی مطہری فرماتے ہیں: "ماہرین نفسیات کے نظریہ کے مطابق، کوئی کام جب آدمی کے لئے عادت بن جائے تو اس میں دو متضاد صفات پیدا ہوجاتی ہیں، جتنی عادی ہوتی چلی جائے اور آدمی کی مشق زیادہ ہوجائے، وہ کام زیادہ آسانی سے ہوجاتا ہے۔ ایک مشین نویس (ٹائپسٹ) کو جسے ٹائپنگ کی عادت پڑجاتی ہے، جتنی اس کی عادت بڑھ جاتی ہے، اس کی توجہ کم ہوجاتی ہے، یعنی اس کا یہ عمل ارادہ اور توجہ کے ساتھ کم اور ایک غیرارادی عمل کے زیادہ قریب ہوجاتا ہے۔ عادت کی صفت یہ ہے۔ یہ جو اسلام میں نیت کے مسئلہ پر اتنی توجہ دی گئی ہے، اس چیز کی روک تھام کے لئے ہے کہ عبادتیں اتنی عادت نہ بن جائیں کہ ایسے کام میں بدل جائیں جو غیرارادی، غیرفکری، بے مقصد اور بغیر توجہ کام جس کے مقصد کا ادراک نہ ہو اور صرف عمل کے ظاہر پر توجہ ہو"۔[5]
۷۔ صبح کی نماز کو مسلسل قضا کرنا اور پڑھنے میں سستی: ہوسکتا ہے بعض لوگ صبح کے وقت سوتے رہیں اور صبح کی نماز کو پڑھنے میں سستی کریں اور سمجھتے ہوں کہ باقی نمازیں طویل ہیں، مگر صبح کی نماز صرف دو رکعت ہی تو ہے، چلیں بعد میں پڑھ لیں گے، لیکن یہ سوچ بالکل غلط ہے کیونکہ حکم تو اسی اللہ کا ہے جس نے باقی نمازیں واجب کی ہیں، تو کسی مصلحت کی بنیاد پر صبح کی نماز کی رکعتیں کم قرار دی ہیں، کیا جس چیز کی مقدار کم ہو، اس کی اہمیت بھی کم ہوتی ہے؟! اگر صبح کے وقت ہمارے کسی دوست نے ہمیں اپنی ملاقات کے لئے جگانے کی کوشش کی تو ہم فوراً جاگ جائیں گے، لیکن کیا وجہ ہے کہ جب رب العالمین کے حکم کے مطابق موذن صبح کی اذان دیتے ہوئے اللہ اکبر کی آواز دے رہا ہوتا ہے تو آدمی گہری نیند سو رہا ہوتا ہے، یہ نماز صبح کو حقیر سمجھنا ہے، حکم دینے والے کی عظمت کو دیکھنا چاہیے، نہ کہ حکم کی مقداروں کو آپس میں موازنہ کرکے، زیادہ مقدار کو ادا کیا جائے اور بظاہر کم مقدار کو چھوڑ دیا جائے! ورنہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایسا آدمی اپنی مرضی کی عبادت کرنا چاہتا ہے نہ کہ مالک کائنات کی رضا کے مطابق۔
۸۔ قضا نمازوں کو پڑھنے میں کوتاہی کرنا: بعض لوگ روزانہ کی واجب نمازیں توجہ، پابندی سے اور وقت پر پڑھتے ہیں، لیکن قضا نمازوں کی ادائیگی کے بارے میں اتنے لاپرواہ ہیں جیسے قضا نمازیں ان پر واجب ہی نہیں ہیں، وہ قضا نمازوں کو اتنی حقیر نظر سے دیکھتے ہیں کہ اگر نماز کا وقت نکل گیا تو آدمی پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں، جبکہ یہ سوچ سراسر غلط ہے۔ قضا نماز بھی ادا نماز کی طرح آدمی پر واجب ہے اور وقت کے گزر جانے سے معاف نہیں ہوجاتی۔
۹۔ اپنے گھرانہ اور اولاد کو نماز کا حکم نہ دینا: باپ کی ذمہ داری ہے کہ بیوی بچوں کا نفقہ دے، اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ اپنے گھرانہ اور بچوں کے لئے صرف مادی اور دنیاوی زندگی کی سہولیات فراہم کرنا، ضروری ہے، لیکن معنوی امور کی طرف توجہ دلانا، آخرت کی زندگی کے لئے اپنے گھرانہ کو تیار کرنا اور خصوصاً نماز کا حکم دینا، ان کی ذمہ داری نہیں، ان کی مرضی پڑھیں یا نہ پڑھیں، جبکہ یہ سوچ قرآن کریم کے حکم کے بالکل خلاف ہے۔ کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے حکم دیا ہے: " وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا "[6]، " اور اپنے اہل کو نماز کا حکم دیں اور اس پر صبر کریں "۔ ہوسکتا ہے کہ باپ اپنی نمازوں کو بالکل پابندی سے پڑھتا ہو، مگر گھرانہ اور اولاد کے نماز نہ پڑھنے پر توجہ نہ دے، یہ آدمی نماز کو حقیر سمجھ رہا ہے۔ اسکول کے کسی امتحان میں نمبر ذرا کم آئیں اور بیٹا کسی سبق میں کمزور ہو تو وہاں باپ پریشانی دکھلائے گا اور ڈانٹے گا، لیکن اگر اولاد نماز نہیں پڑھتی تو اسے کوئی کمی، نقصان اور عیب محسوس ہی نہیں ہوتا جس کی اصلاح کردے۔
۱۰۔ معمولی کپڑوں میں نماز پڑھنا: آدمی جب کسی عظیم شخصیت سے ملاقات کے لئے جائے تو اچھے، صاف ستھرے کپڑے پہن کر اور خوشبو لگا کر جاتا ہے، نماز کے لئے بھی اسی طرح اللہ کی بارگاہ میں جانا چاہیے، یعنی ایسا نہ ہو کہ آدمی میلے کپڑوں کے ساتھ، یا نیند کے خاص کپڑوں کے ساتھ نماز پڑھ دے، یہ نماز کو حقیر سمجھنا ہے۔
نیز روایات میں نماز کو حقیر سمجھنے والے اور غفلت کرنے والے آدمی کے لئے مختلف طرح کے عذاب اور نقصانات بیان ہوئے ہیں، جن پر الگ گفتگو کی ضرورت ہے۔

نتیجہ: کسی کام کو توجہ، غور اور شرائط کے مطابق انجام دینا اس بات کی دلیل ہے کہ آدمی اس کام کو اہمیت دے رہا ہے اور کسی کام کو لاپرواہی، سستی اور غفلت سے انجام دینا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ کام آدمی کی نظر میں حقیر اور بے قیمت ہے، جسے اس نے غفلت کے ذریعہ نظرانداز کردیا ہے۔ نماز وہ عبادت ہے جو دین اسلام کا ستون ہے، اہل بیت (علیہم السلام) نے نماز کو حقیر سمجھنے کی سخت مذمت کی ہے۔ ہوسکتا ہے آدمی نماز پڑھتا ہو لیکن اس کا نماز کے مذکورہ مختلف پہلووں پر توجہ نہ کرنا اس بات پر دلیل ہو کہ وہ نماز کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] وسائل الشّيعة: ج 4، ص 23، ح 4413۔
[2] بحار الأنوار، ج80، ص6۔
[3] نهج الفصاحة، ج1، ص738۔
[4] مناسك جامع حج ، آیت اللہ ناصر مکارم، ج1، ص461۔
[5] شهید مرتضی مطهری(ره)، تعلیم و تربیت در اسلام، ص197۔
[6] سورہ طہ، آیت 132۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 5 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 57