خلاصہ: انسان کی روح بھی بیماریوں میں مبتلا ہوتی ہے، لہذا ان بیماریوں کو بھی دور کرنے کے لئے کوشش کرنی چاہئیے۔
حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "أَشَدُّ مِنْ مَرَضِ الْبَدَنِ مَرَضُ الْقَلْبِ"، "بدن کی بیماری سے زیادہ سخت دل کی بیماری ہے"۔ [نہج البلاغہ، حکمت ۳۸۸]
جس طرح انسان کا جسم کسی بیماری کا شکار ہوجاتا ہے اسی طرح روح بھی مختلف امراض میں مبتلا ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ ہوسکتا ہے کہ انسان کا جسم بالکل صحیح و سلامت ہو، لیکن اس کی روح مریض ہو۔ روح کی بیماریاں اسقدر زیادہ ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ انسان ایک ہی وقت میں طرح طرح کے امراض کا شکار ہو اور خود بھی متوجہ نہ ہو کہ کتنے امراض میں مبتلا ہے۔
جسم جب مریض ہوجائے تو اسے علاج کی ضرورت ہوتی ہے، کفر، منافقت، تکبر اور کئی دیگر برے صفات روح کی بیماریاں ہیں، اسی لیے روح کو بھی علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔
جب جسم کی بیماریوں کا علاج نہ کیا جائے تو بیماری بڑھتی رہتی ہے اسی طرح روح کی بیماری کا اگر علاج نہ کیا جائے تو بڑھتی رہے گی، جو شخص تکبر اور غرور کرتا رہتا ہے اگر اس کا علاج نہ کرے یعنی تکبر و غرور کو چھوڑ کر تواضع اور خاکساری اختیار نہ کرے تو اس کا تکبر بڑھتا جائے گا اور اس کی روح مزید بیمار ہوتی جائے گی۔
جس آدمی میں حسد کی مرض پائی جاتی ہے اسے چاہیے کہ اس مرض کو ختم کرنے کے بارے میں قرآن اور احادیث کی روشنی میں غور کرے۔ وہ یہ سوچے کہ اللہ کی تقسیم پر راضی ہونا چاہیے کیونکہ اللہ صاحبِ حکمت ہے، جس پر حسد کررہا ہے اس سے کسی چیز کی کمی نہیں ہوگی، اور حسد کرنے والے کو حسد کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ حسد کرنے سے خود اسی کو تکلیف ہوتی رہے گی اور کئی دیگر دلائل۔
* نہج البلاغہ، حکمت ۳۸۸۔
Add new comment