خلاصہ: اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا اس کے گناہوں کے معاف ہونے کے لئے پہلا قدم ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خدا کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا گناہوں کی بخشش کا سبب ہے جس کے بارے میں دعاء افتتاح میں ہم اس طرح خدا کی بارگاہ میں دعا کرتا ہے: «اللَّهُمَّ إِنَّ عَفْوَكَ عَنْ ذَنْبِي وَ تَجَاوُزَكَ عَنْ خَطِيئَتِي وَ صَفْحَكَ عَنْ ظُلْمِي وَ حِلْمَكَ عَنْ كَثِيرِ جُرْمِي عِنْدَ مَا كَانَ مِنْ خَطَائِي وَ عَمْدِي أَطْمَعَنِي فِي أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَا أَسْتَوْجِبُهُ مِنْكَ؛ خدایا تیرا میرے گناہوں کو بخشنا اور تیرا میری غلطیوں کو درگذر کرنا اور میرے ظلم سے معافی اور میرے اعمال کی پردہ پوشی اورمیرے زیادہ جرم کے باوجود تیری برد باری نے جو میں نے جان بوجھ کر یا غلطی سے کیا مجھ کو لالچ میں ڈال دیا کہ میں تجھ سے سوال کروں اس چیز کا جس کا میں مستحق نہیں ہوں»[زاد المعاد، ص۸۷]۔
اس دعا میں روزہ دار اپنے گناہوں کی وجہ سے خود کو خدا کی بخشش کا مستحق نہیں سمجھ رہا ہے، اسکا یہی اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا اس کے گناہوں کے معاف ہونے کے لئے پہلا قدم ہے، جس کے بارے میں قرآن میں خداوند متعال اس طرح فرمارہا ہے:«وَ آخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلاً صالِحاً وَ آخَرَ سَيِّئاً عَسَى اللَّهُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحيمٌ[سورۂ توبه، آیت:۱۰۲] اور دوسرے وہ لوگ جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا کہ انہوں نے نیک اور بد اعمال مخلوط کردئیے ہیں عنقریب خدا ان کی توبہ قبول کرلے گا کہ وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے»۔
اس آیت میں جو اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہے خدا اسے امید دلا رہا ہے کہ جو اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے خدا اسے بخشنے والا ہے۔ ماہ مبارک رمضان خدا کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کا بہترین موقع ہے۔
*زادا لمعاد، محمد باقر مجلسی، موسسة الأعلمي للمطبوعات، بیروت، ۱۴۲۳ق۔
Add new comment