علمائے کرام کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہی نہیں بلکہ عین راہ ہے، انکے واقعات ہماری زندگی کا سرمایہ ہیں۔
شیخ مرتضیٰ انصاری اعلیٰ اللہ مقامہ نے ایک مرتبہ اپنے بھائی کے ساتھ کاشان سے مشہد کا سفر کیا ، پھر تہران آئے، وہاں مدرسۂ مادر شاہ میں ایک طالب علم کے کمرے مٰں ٹھہرے، ایک روز شیخ نے اس طالب علم کو کچھ پیسے دیئےتاکہ روٹی خرید کر لائے جب وہ طالب علم روٹی لے کر آیا تو شیخ نے دیکھا کہ وہ کچھ شیرینی بھی روٹی پر رکھ کر لارہا ہے، شیخ نے اس سے پوچھا تم نے شیرینی کیسے خریدی، اس نے کہا قرض لے کر آیا ہوں،شیخ نے جتنی روٹی شیرینی سے خالی تھی وہ لے لی اور فرمایا کہ مجھے یقین نہیں ہے کہ اس قرض کو ادا کرنے کے لیے میں زندہ رہوں گا۔
چند سال گذرنے کے بعد جب وہ طالب علم نجف گیا تو شیخ سے عرض کیا ؛ آپ نے کونسا عمل انجام دیا ہے جس کے سبب اس منزل تک پہنچے ، اور خدا نے آپ کواس حد تک کامیاب کیا کہ آپ حوزۂ علمیہ میں رہتے ہیں اور عالم تشیع کے مرجع ہیں، شیخ نے فرمایا چونکہ میں نے شیرینی لگی ہوئی روٹی کھانے کی کبھی جرأت نہیں کی اور تم نے جرأت کرکے روٹی اور شیرینی دونوں کھالی تھی۔
.................
منابع
زندگی و شخصیت شیخ انصاری ص70
Add new comment