وہابی افکار و خیالات اس قدر اسلامی تعلیمات سے دور ہیں کہ وہ اسلامی تعلیمات کا سہارا لے کر اپنی خیالی تعلیمات کو اسلام کا جزء بنانا چاہتے ہیں جس سے ہوشیار رہنا ہر فرد مسلمان پر واجب و ضروری ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا: فقط اس وقت تک لڑو جب تک کہ کلمۂ «لا الہ الا اللہ» کی صدا لوگوں میں بلند نہ ہوجائےاور جب لوگ کلمۂ شہادتیں زبان پر جاری کرلیں تو انکی جان و مال محترم ہے،اور ان پر کسی بھی قسم کی تعدی حرام ہے[صحیح بخاری، ج1، ص14]۔ لیکن وہابیت کے پیشوا محمد ابن عبد الوہاب کا بیان رسول اللہ کے بیان کے برخلاف ہےانکا عجوبہ بیان ملاحظہ فرمائیں: خدا کی وحدانیت کی گواہی سے مراد فقط زبانی و لسانی گواہی نہیں ہے کیونکہ اس طرح سے گوہی دینا کسی بھی طرح کوئی فائدہ مند نہیں ہے اور فقط لسانی گواہی سے کسی کا مال اور خون حرام نہیں ہوتا، بلکہ ایسے افراد کے خون اور مال کی حرمت ثابت ہے کہ جو زبانی اقرار کے ساتھ ساتھ غیر خدا کا بھی انکار کریںاور غیر خدا کی عبادت نہ کریں، اس بنیاد پر اگر کوئی شہادتین کو اپنی زبان پر جاری کرتا ہے لیکن قلبی طور پر شک رکھتا ہو تو اس کا جان اور مال حرام نہیں ہے»[ کتاب التوحید، ص26]۔
.........
منابع
«أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَإِذَا قَالُوهَا مَنَعُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى» بخاري، محمّد بن اسماعيل، صحيح بخاري، تحقيق: محمد زهير بن ناصر، دار طوق النجاة، چاپ اوّل، 1422ق، ج1، ص14، ح25۔
«فإنه لم يجعل التلفظ بها عاصما للدم والمال، بل ولا معرفة معناها مع لفظها، بل ولا الإقرار بذلك، بل ولا كونه لا يدعو إلا الله وحده لا شريك له، بل لا يحرم ماله ودمه حتى يضيف إلى ذلك الكفر بما يعبد من دون الله؛ فإن شك أو توقف لم يحرم ماله ودمه». محمد بن عبدالوهاب، کتاب التوحید، محقق: عبدالعزیز بن عبدالرحمن السعید، ناشر: جامعة الأمام محمد بن سعود، الرياض، المملكة العربية السعودية، ص26۔
Add new comment