خلاصہ: ہمیں خدا کی وسیع رحمت کا یقین ہوگا اور ہم قرآن اور اہل بیت(علیھم السلام) کے بتائے ہوئے راستہ پر چلیں گے تو یقینا خدا ہمیں اس چیز کی طرف پہونچائیگا جہاں اسکی رضا اور مرضی ہیں.
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خداوند عالم کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ ہم اسکا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے، جیسا کہ خود خداوند عالم ارشاد فرما رہا ہے: « فَقُلْ رَبُّکُمْ ذُو رَحْمَهٍ واسِعَه[سورہ انعام،آیت:۱۴۷] کہہ دیجئے کہ تمہارا پروردگار بڑی وسیع رحمت والا ہےٍ»، وہ رحمت کا ایسا بہتا ہوا چشمہ ہےکہ جس سے تمام کائنات سیراب ہوتی رہتی ہے، جو سب کے لئے واضح اور روشن ہے، جس کی طرف رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرح اشارہ فرما رہے ہیں: «إِنَّ لِلَّهِ مِائَةَ رَحْمَةٍ أَنْزَلَ مِنْهَا رَحْمَةً وَاحِدَةً بَيْنَ الْجِنِّ وَ الْإِنْسِ وَ الْبَهَائِمِ وَ أَخَّرَ تسعة [تِسْعاً] وَ تِسْعِينَ رَحْمَةً يَرْحَمُ بِهَا عِبَادَهُ؛ خداوند متعال کی رحمت کے سو باب ہیں، جن میں سے اس نے ایک کو زمین پر نازل کیا ہے اور(اس رحمت) کو اپنی مخلوق میں تقسیم کیا ہے۔ لوگوں کے درمیان جو عطوفت، مہربانی اور محبت ہے وہ اسی کا پرتو ہے لیکن ننیانوے حصے رحمت اس نے اپنے لئے مخصوص رکھی ہے اور قیامت کے دن اپنے بندوں کو اس سے نوازے گا»[بحارالانوار، ج:۶، ص:۲۱۹]، خداوند عالم کی اسی رحمت کا واسطہ دے کر ہم خدا کی بارگاہ میں دعاگو ہیں: «اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ لِی نَصِیباً مِنْ رَحْمَتِکَ الْواسِعَةِ؛ خدایا میرے لئے اپنی رحمت کا مکمکل وسیع حصہ قرار دے»۔
جب ہمیں خدا کی وسیع رحمت کا یقین ہوگا اور ہم قرآن اور اہل بیت(علیھم السلام) کے بتائے ہوئے راستہ پر چلیںگے تو یقینا خدا ہمیں اس چیز کی طرف پہونچائیگا جہاں اسکی رضی اور مرضی ہیں۔
*بحارالانوار، محمد باقر مجلسی، ج:۶، ص:۲۱۹، دار احیاء التراث العربی،۱۴۰۳ق۔
Add new comment