خلاصہ: اللہ تعالیٰ نے شیطان کے نقش قدم پر چلنے سے منع کیا ہے۔
سورہ بقرہ کی آیت ۲۰۸ میں ارشاد الٰہی ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ"، " اے ایمان والو! تم سب کے سب امن و سلامتی (والے دین) میں مکمل طور پر داخل ہو جاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو کیونکہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے"۔
اللہ تعالیٰ نے مومنین کو اتحاد کی دعوت دی ہے کہ جو انبیاء (علیہم السلام) کا راستہ ہے اور مومنین کو شیطان کے نقش قدم پر چلنے سے منع کیا ہے، کیونکہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے اور اس کے قدم انسان اور معاشرے کے لئے نقصان دہ ہیں۔
آیت کریمہ کی ابتدا اور انتہا کو مدنظر رکھتے ہوئے واضح ہوتا ہے کہ اختلاف اور تفرقہ شیطان کے راستوں میں سے ہے، کیونکہ آیت کی ابتدا مومنین کو اتحاد کی دعوت دے رہی ہے اور انتہا شیطان کے نقش قدم پر چلنے سے منع کررہی ہے، لہذا تفرقہ شیطان کا راستہ ہے، جیسا کہ صلح اور اتحاد انبیاء (علیہم السلام) کا راستہ ہے۔ بنابریں تفرقہ ڈالنے کی نیت کسی بھی شخص میں، شیطان کا وسوسہ ہے، کیونکہ:
اولاً: شیطان کا راستہ "صراط مستقیم" اور وحی اور برہان کے مقابلے میں ہے: "وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ"۔ [سورہ انعام، آیت ۱۵۳]
ثانیاً: سوچ وجودی چیز ہے اور کوئی وجودی چیز خودبخود پیدا نہیں ہوتی، بلکہ اسے فاعلی سبب کی ضرورت ہے۔
ثالثاً: اس کا سبب خود ذہن نہیں ہوسکتا، کیونکہ سوچ ذہن میں پیدا ہوتی ہے اور ذہن اس کا صرف ظرف ہے نہ کہ فاعل۔
سوچوں کا فاعلی سبب، اللہ کا الہام ہے: "فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا"۔ [سورہ شمس، آیت ۸]
اور ملائکہ کے الہامات: " تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ"۔ [سورہ فصلت، آیت ۳۰]
یا شیاطین کے القائات ہیں: "وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ"۔ [سورہ انعام، آیت ۱۲۱]
ان دونوں قسموں کو پہچاننے کا معیار عقل سلیم ہے اور معتبر نقل ہے جو اللہ کی وحی سے مستفاد ہوئی ہے۔ جو کچھ غیر معصوم کو سوچ یا عمل کے طور پر حاصل ہو، اگر اللہ کے میزان (عقل اور معتبر نقل) کے مطابق نہ ہو تو شیطان کا القا اور وسوسہ ہے۔
اس جملہ میں "غیرمعصوم" اس لیے کہا کہ معصوم (علیہ السلام) وحی یا الہام الٰہی سے سیراب ہیں اور انہیں عقلی یا نقلی استدلال کی ضرورت نہیں ہے۔
* ماخوذ از: تفسیر تسنیم، ج۱۰، ص۲۷۴۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment