خلاصہ: بنی امیہ کی بنی ہاشم سے پرانی دشمنی ہے جو مختلف زمانوں میں طرح طرح کی شکلوں میں ظاہر ہوتی رہی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بنی ہاشم اور بنی امیہ دو قبیلے تھے قریش اور بنی عبد مناف سے۔ ان دو قبیلوں کا اسلام سے پہلے آپس میں گھریلو اختلاف تھا، لیکن جب رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) مبعوث بہ رسالت ہوئے تو بنی امیہ کی بنی ہاشم سے دشمنی بڑھ گئی۔ وہ مسلمانوں کو اور پیغمبر اسلام (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کو مکہ میں جس قدر ہوسکتا تھا تکلیف دیتے تھے۔
جب مسلمانوں نے مدینہ ہجرت کی اور حکومت قائم کی تو ان کو یہ موقع ملا کہ اپنے بعض حقوق کو بنی امیہ اور دیگر مشرکین سے واپس لے سکیں۔ جب قریش اور ابوسفیان کا تجارتی قافلہ شام کے راستے میں تھا تو مسلمانوں نے اپنا کچھ مال ان سے واپس لینے کے لئے اس قافلہ پر حملہ کیا جس کا نتیجہ جنگ بدر ہوا۔ قریش اور مسلمانوں کے درمیان جنگ اور جھگڑا فتح مکہ تک جاری رہا، جب مسلمانوں نے مکہ فتح کرلیا اور مشرکین کو شکست ہوئی اور ابوسفیان اپنے ساتھیوں کے ساتھ شکست کھا گیا تو رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے ابوسفیان کے گھر کو پناہگاہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: جو ابوسفیان کے گھر پناہ لے وہ امان میں ہے۔ آپؐ اس طریقے سے چاہتے تھے کہ ان کے دلوں کو مسلمانوں کے قریب کرتے ہوئے ان کے فساد اور تخریب کی روک تھام کریں۔ اسی لیے ابوسفیان جیسے افراد جنہیں اس دن پناہ دی گئی "طلقاء" کہا گیا، یعنی "رسو اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے آزاد کیے ہوئے"۔ حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) نے اپنے خطبہ میں جو بنی امیہ کو مخاطب قرار دیتے ہوئے "یا بن الطلقاء"کہا تھا، یہی بات مقصود تھی۔
اس کے باوجود کہ بنی امیہ اسلام کی پناہ میں قرار پائے اور ظاہری طور پر مسلمان ہوگئے اور امان لے لی لیکن ہرگز ان کی جو بنی ہاشم اور خود رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) سے دشمنی تھی اس میں کوئی کمی نہ آئی اور ہرگز حقیقی ایمان ان کے دل میں قرار نہ پایا اگرچہ وہ ظاہراً اسلام لائے، نماز پڑھتے تھے اور مسلمانوں کی محفلوں میں آتے جاتے تھے، لیکن ان کے دل میں ایمان نہیں تھا۔ [در پرتو آذرخش، ص ۱۵]
* ماخوذ از: در پرتو آذرخش، ص ۱۵، آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی، قم، موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی رحمہ اللہ، ۱۳۸۱۔
Add new comment