حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کی مظلومیت کو چھپانے پر دشمنوں کی کشمکش

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: حقائق کو چھپانے کی قرآن میں سخت مذمت ہوئی ہے، حقیقی دین اسلام کے بہت سارے حقائق کو چھپایا گیا ہے، بلکہ یہ کہنا بہتر ہے کہ جتنے فرقہ اور مذہب ایجاد کیے گئے سب نے حقائق کو چھپا کر من گڑھت باتوں کو ان حقائق کی جگہ پر رکھ کر پیش کیا ہے، چھپائے گئے حقائق میں سے کائنات کی ایک عظیم حقیقت، حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی مظلومیت اور آپ پر کیا گیا ظلم ہے۔

حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کی مظلومیت کو چھپانے پر دشمنوں کی کشمکش

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حق کو کتمان کرنا یعنی چھپانا اور مخفی کرنا ایسی بری صفت ہے کہ قرآن کریم میں یہ عنوان بیس مقامات پر بیان ہوا ہے۔ معاشرہ کا کامیابی کی منزل تک پہنچنا اس بات پر موقوف ہوتا ہے کہ علماء اور دانشور طبقہ، معاشرہ کے لوگوں کو علم و دانائی سکھائے اور ان سے جہالت کو دور کرے اور حقائق کو نہ چھپائے، یہ علماء کا یقینی فریضہ ہے اور اللہ تعالی نے علماء سے عہد لیا ہے کہ حقائق کو لوگوں سے مت چھپائیں، کیونکہ پروردگار عالم نے اپنے لاریب کلام میں فرمایا ہے: "وَإِذَ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاء ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْاْ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ[1]"، "اس موقع کو یاد کرو جب خدا نے جن کو کتاب دی ان سے عہد لیا کہ اسے لوگوں کے لئے بیان کریں گے اور اسے چُھپائیں گے نہیں لیکن انہوں نے اس عہد کو پس پشت ڈال دیا اور تھوڑی قیمت پر بیچ دیا تو یہ بہت برا سودا کیا ہے"۔ لفظ "تبیین" اور "بیان کرنے" سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی لوگوں کے سامنے تلاوت کردینا اور اللہ کی کتاب کی اشاعت کردینا کافی نہیں ہے، بلکہ ان کو چاہیے اور ان سے عہد لیا گیا ہے کہ اس کتاب میں پائے جانے والے حقائق کو لوگوں کے لئے واضح طور پر بیان کریں اور چھپائیں نہیں تاکہ لوگ ان حقائق سے آگاہ ہوجائیں۔
اہل کتاب نے حقائق کو چھپایا: اہل کتاب حقائق کو جانتے تھے کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات کو اپنی کتب میں پاچکے تھے، لیکن بالکل جان بوجھ کر انہوں نے ان حقائق کو چھپا دیا، لہذا قرآن کریم میں ارشاد الہی ہے: "الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءهُمْ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ[2]"، "جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ رسول کو بھی اپنی اولاد کی طرح پہچانتے ہیں. بس ان کا ایک گروہ ہے جو حق کو دیدہ و دانستہ چھپا رہا ہے"۔
منافقوں نے حقائق کو چھپایا: اللہ تعالی نے قرآن کریم میں منافقوں کے چھپانے کے کام سے پردہ ہٹایا ہے، فرمایا: "وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ نَافَقُوا وَقِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوِ ادْفَعُوا قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَاكُمْ هُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْإِيمَانِ يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُونَ[3]"، "اور (اللہ) منافقین کو بھی دیکھنا چاہتا تھا. ان منافقین سے کہا گیا کہ آؤ راہِ خدا میں جہاد کرو یا اپنے نفس سے دفاع کرو تو انہوں نے کہا کہ ہم کو معلوم ہوتا کہ واقعی جنگ ہوگی تو تمہارے ساتھ ضرور آتے. یہ ایمان کی نسبت کفر سے زیادہ قریب تر ہیں اور زبان سے وہ کہتے ہیں جو دل میں نہیں ہوتا اور اللہ ان کے پوشیدہ امور سے باخبر ہے"۔
حق کو چھپانے کا عذاب:"إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلاَّ النَّارَ وَلاَ يُكَلِّمُهُمُ اللّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ . أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُاْ الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَى وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ فَمَآ أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ[4]"، " جو لوگ خدا کی نازل کی ہوئی کتاب کے احکام کو حُھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میں صرف آگ بھر رہے ہیں اور خدا روز هقیامت ان سے بات بھی نہ کرے گااور نہ انہیں پاکیزہ قرار دے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی کو ہدایت کے عوض اور عذاب کو مغفرت کے عوض خرید لیا ہے آخریہ آتش جہنّم پر کس قدرصبرکریں گے۔ یہ عذاب صرف اس لئے ہے کہ اللہ نے کتاب کو حق کے ساتھ نازل کیا ہے اور اس میں اختلاف کرنے والے حق سے بہت دورہوکر جھگڑے کررہے ہیں"۔
جیسا کہ گفتگو کی ابتداء میں بیان ہوا کہ اللہ تعالی نے علماء سے عہد لیا ہے کہ وہ حقائق کو لوگوں کے لئے واضح طور پر بیان کریں اور نہ چھپائیں، اس آیت کی بنیاد پر دیکھئے کہ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی مظلومیت کو کیوں چھپایا گیا۔ اگرچہ علماء اہل سنت نے کوشش کی ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی مظلومیت اور شہادت کو اور ظالموں کے ظلم کو چھپائیں، لیکن پھر بھی انہی کے علماء کو کچھ نہ کچھ حقیقت بیان کرنا پڑی۔ یہ چھپانے کی کیفیت اور اہل سنت کے علماء کی ایک دوسرے سے کشمکش مثال کے طور پر یہ ہے کہ ابن قتیبہ دینوری نے اپنی کتاب الامامۃ والسیاسۃ میں لکھا ہے: "ابوبکر ان افراد کے تعاقب میں تھا جنہوں نے بیعت نہیں کی تھی، وہی افراد جو علی (علیہ السلام) کے پاس اکٹھے ہوئے تھے، لہذا عمر کو ان کی طرف بھیجا، عمر نے پہنچ کر آواز دی، لیکن انہوں نے کوئی پرواہ نہ کی اور گھر سے باہر نہ نکلے، عمر نے لکڑیاں منگوائیں اور کہا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں عمر کی جان ہے، باہر آو ورنہ گھر کو گھر والوں کے ساتھ آگ لگا دوں گا۔ عمر سے کہا گیا: اے اباحفص! اگرچہ اِس گھر میں فاطمہ (سلام اللہ علیہا) ہوں۔ عمر نے کہا: ہاں۔ دوسری روایت میں آیا ہے: عمر انصار کی بھاری نفری اور مہاجرین کےکچھ  افراد کے ساتھ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے دروازہ پر آیا تھا۔ پھر ابن قتیبہ نے لکھا ہے: جب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) نے ان لوگوں کی آواز سنی تو بلند آواز سے کہا: "يا ابت يا رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم) ماذا لقينا بعدك من ابن الخطاب و ابن ابى قحافه[5]"...، "اے بابا جان اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! ہم نے آپ کے بعد کیسے ظلم (عمر) ابن خطاب اور (ابوبکر) ابن ابی قحافہ سے دیکھے ہیں"۔ بعض وہابیوں کا اعتراض ہے کہ الامامۃ والسیاسۃ، ابن قتیبہ کی کتاب نہیں ہے، وہ اس طریقہ سے ان روایات کو غیرمعتبر ثابت کرنا چاہتے ہیں جو ان کی غلطیوں کو ثابت کرتی ہیں۔ بعض اہل سنت علماء کا نظریہ ہے کہ جب مورخین اور محدثین، صحابہ کے غلط کردار کی روایات سے سامنا کریں تو ان کو کتمان کریں اور چھپائیں۔ ابن حجر ہیثمی نے لکھا ہے: "صرح ائمتنا و غيرهم في الاصول بأنه يجب الامساك عمّا شجر بين الصحابة"، "ہمارے اور دیگر فرقوں کے اماموں نے واضح طور پر کہا ہے کہ سب پر واجب ہے کہ صحابہ کے درمیان اختلاف کو بیان کرنے سے پرہیز کریں"، پھر ابن حجر ہیثمی نے ابن قتیبہ کی کتاب کے بارے میں لکھا ہے:"بعض بلند رتبہ محدثین جیسے ابن قتیبہ نے کتاب لکھی ہے، مناسب یہ تھا کہ وہ واقعات کی تفصیلات کو بیان کرنے سے پرہیز کرتے اور اگر انہیں نقل کرنا ضروری بھی تھا تو ان واقعات کو اہل سنت کے ضابطوں کے مطابق بیان کرتے"[6]۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابن حجر نے صرف حقیقت کو چھپانا کافی نہیں سمجھا، بلکہ تاریخی واقعات میں تحریف اور تبدیلی کرنے پر تاکید بھی کی ہے۔ اہل سنت کے علماء نے حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے گھر کے دروازے کو آگ لگانے اور حضرت محسن (علیہ السلام) کی شہادت والی روایات کو نقل کرنے والے راویوں کو جھوٹا اور رافضی کہا ہے، جیسا کہ عسقلانی نے لسان المیزان میں بچہ کے سقط ہونے کی روایات کو احمد بن محمد سرّی بن یحیی بن ابی دارم کو رافضی اور جھوٹا کہا ہے[7] اور ذہبی نے میزان الاعتدال[8] میں اور شہرستانی نے بھی جب ابراہیم بن سیار جو نظّام معتزلی کے نام سے معروف ہے، سے ایسی روایت نقل کی ہے تو انہوں نے اس پر رافضی اور جھوٹا ہونے کا الزام لگا دیا ہے[9]۔ واضح رہے کہ حقائق کو چھپانے کے سلسلہ میں دیگر کئی دلائل پائے جاتے ہیں۔
نتیجہ: خدا کی طرف سے مقرر کردہ دینی تعلیمات میں سے حقائق کو چھپانا کیونکہ کتاب الہی کے کتنے حصہ کو ناقص کردیتا ہے، دین کے چہرہ کو بگاڑ دیتا ہے اور لوگوں کی ترقی و کمال میں انتہائی سخت رکاوٹ ڈال دیتا ہے اور کئی لوگوں کو بلکہ اکثر لوگوں کو گمراہی کے گھاٹ اتار دیتا ہے، لہذا منافق کا یہ کام کفر سے کہیں بڑھ کر زیادہ اثرانداز ہوتا ہے اور اس کے اثرات اتنی گہرائی تک پہنچ جاتے ہیں کہ پھر کئی سدیاں معاشرہ کی اصلاح اور حق کی تبلیغ کرتے بیت جاتی ہیں، مگر پھر بھی لوگوں کی باطل افکار اور غلط اعمال میں تبدیلی کا آنا اور حق کی طرف ہدایت پانا دشوار کام ہے، جبکہ ساتھ ساتھ انہی باطل نظریات اور من گھڑت عقائد کو ہر زمانے میں آگے بڑھانے والے اور ان کے منحوس پرچم اور شیطانی جھنڈے کو لہرانے والے لوگ بھی سرگرم عمل رہتے ہیں جو سابقہ نسلوں سے بڑھ کر نئی نسلوں کو اپنے انحرافی نظریات کے زیراثر رکھتے ہوئے اہل بیت (علیہم السلام) کی انتھک محنتوں کو پامال کردیتے ہیں اور طرح طرح کے دھوکوں کے ذریعے قرآن کی ہدایات سے ہٹا کر گمراہی کی اندھیری وادی میں دھکیل دیتے ہیں جس کے بعد گمراہ ہونے والوں کا کوئی مددگار نہیں ہوتا حتی ان کو گمراہ کرنے والے سربراہ بھی ان کی فریاد رسی نہیں کرسکتے، لہذا ہر انسان اور خاصکر جوان نسل کو چاہیے کہ اپنے ہادی اور راہنما کے بارے میں غور کرے کہ کیا وہ راہنما ہدایت یافتہ ہے یا بھٹکا ہوا خود بھی ہدایت کا محتاج ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] سورہ آل عمران، آیت 187۔
[2] سورہ بقرہ، آیت 146۔
[3] سورہ آل عمران، آیت 167۔
[4] سورہ بقرہ، آیات 174، 175۔
[5] الامامة والسياسة، ابن قتيبة الدينوري، تحقيق الشيري: ج 1، ص 30۔
[6] الصواعق المحرقة ، ص93۔
[7] عسقلانی، ‌لسان المیزان، ج1، ص 268۔
[8] ذهبی، میزان الاعتدال، ج1، ص 139۔
[9] شهرستانی، الملل و النحل، ج1، ص77۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
3 + 11 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 86