ابن تیمیہ اور زیارت قبور اور روایت شدّ رحال

Mon, 09/30/2019 - 07:26

ابن تیمیہ شدّ رحال کی روایت کی بنا پر زیارت شرعی کو سلام اور دعا میں محدود سمجھتا ہے اور دیگر افعال جیسے زیارت کیلئے سفر کرنے کو بدعت اور شرک قرار دیتا ہے ۔ بہت سے سنی اور شیعہ علماء نے اپنی تالیفات میں ابن تیمیہ کے ان نظریات کو رد کیا ہے اور احادیث میں شدّ رحال کی روایت کو تین مذکورہ مساجد کی کثرت سے زیارت کرنے کے معنا میں سمجھتے ہیں۔

ابن تیمیہ اور زیارت قبور اور روایات شدّ رحال

ابن‎ تیمیہ (۶۶۱-۷۲۸ق)، ان پہلے افراد میں سے ہے جس نے زیارت قبر پیغمبر(ص) کیلئے سفر، قبر رسول خدا(ص) کے پاس دعا اور توسل کے حرام ہونے کے مسئلے کو بیان کیا ۔ اس کی رائے کے مطابق جس نے زیارت قبر رسول اکرم(ص) کے قصد سے سفر کیا اس نے اجماع مسلمین کی مخالفت کی اور ایسا شخص شریعت محمدی سے خارج ہو گیا ہے ۔ اسی طرح قبور کو چھونے ،چومنےاور ان پر اپنا چہرہ رکھنے کے بارے میں بھی ادعا کرتا ہے کہ تمام مسلمانوں نے اس سے منع کیا ہے اور سلف و بزرگان میں سے کسی نے ایسا کام نہیں کیا ہے ۔وہ ایسا کرنے کو شرک قرار دیتا ہے ۔[عباسی، رد نظر وہابیت از سوی اہل سنت در حرمت زیارت قبور، پاییز و زمستان ۱۳۹۱، ص۱۰۰ و ۱۰۱]ابن تیمیہ کے مطابق زیارت قبر پیغمبر(ص) کے قصد سے سفر کرنا سفر معصیت ہے اور ایسے سفر میں نماز قصر ہے [عباسی، رد نظر وہابیت از سوی اہل سنت در حرمت زیارت قبور، پاییز و زمستان ۱۳۹۱، ص۱۰۱]
سعودی عرب میں فتوا دینے والی کمیٹی اس ملک کا اعلا ترین دینی ادارہ ہے جو ابن ‎تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کی پیروی کرتا ہے ۔اس نے زیارت قبور کے متعلق اعلان کیا ہے: زیارت قبر پیامبر کے قصد سے مدینہ کا سفر جائز نہیں ہے ،اگر کوئی کسی اور کام مثلا تجارت یا طلب علم یا اس جیسے کسی اور کام کیلئے یہاں آتا ہے تو مخصوص شرائط کے ساتھ قبر پیغمبر کی زیارت کر سکتا ہے ۔ اس کمیٹی نے اس فتوے کے اجرا کیلئے حدیث شدّ رحال سے استناد کیا ہے ۔اسی طرح اس فتوے میں پیغمبر کی وفات کے بعد دعا اور رسول اللہ(ص) سے استغاثے کو دوسرے مردوں کی مانند قرار دیا ہے اور اسے شرک اکبر سے ملحق کیا ہے ۔ [عباسی، رد نظر وہابیت از سوی اہل سنت در حرمت زیارت قبور، پاییز و زمستان ۱۳۹۱، ص۱۰۱]
روایت شدّ رحال
اکثر مسلمانوں کے برخلاف ایک مختصر سا گروہ روایات شدّ رحال سے تمسک کی بنا پر قبور انبیاء، ائمہ اور اولیائے کرام کی قبور کی زیارت کیلئے سفر کے قصد کو حرام، مکروه یا شرعی دلیل کے بغیر سمجھتے ہیں ۔ اس روایت کا متن اہل سنت منابع جیسے صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابن ماجہ اور بعض دیگر منابع میں اس طرح آیا ہے : لاتُشَدُّ الرِّحَالُ إِلاَّ إِلَی ثَلاثَةِ مَسَاجِد: المَسْجِدِ الحَرَام وَمَسْجِدِی هَذَا وَالمَسْجِدِ الأَقْصَی صرف تین مساجد: مسجدالحرام، میری مسجد اور مسجدالاقصی کیلئے رخت سفر باندھنا جائز ہے .»[عباسی قدم، بررسی متنی و سندی روایت شد رحال، ۱۳۹۱، ص۱۹۲-۱۹۳]
زیارت کے جائز نہ ہونے کا اہم ترین مخالف ابن تیمیہ اپنی کتاب الزیارة میں مزید لکھتا ہے:صحیحین میں آنے والی روایت :صرف تین مساجد: مسجدالحرام، میری مسجد اور مسجدالاقصی کیلئے رخت سفر باندھنا جائز ہے، کی وجہ سے پیغمبروں اور صالح افراد کی قبور کی زیارت کیلئے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔اس حدیث کے صحیح اور اس پر عمل کرنے میں تمام علماء متفق ہیں۔ایک اور جگہ لکھتا ہے: رسول اکرم سے انکی قبر کی زیارت کے متعلق ایک بھی معتبر روایت ہم تک نہیں پہنچی اور جو کچھ بھی اس سلسلے میں ہم تک پہنچا ہے وہ ضعیف ہے یا جعلی ہے ۔[عباسی مقدم، بررسی متنی و سندی روایت شد رحال، ۱۳۹۱، ص۱۹۳]مختلف مذاہب اسلامی کے بہت سے علما نے ابن تیمیہ کے جواب اور اسکے اس ادعا کے رد میں تالیفات لکھی ہیں ۔ [عباسی مقدم، بررسی متنی و سندی روایت شد رحال، ۱۳۹۱، ص۱۹۳]
ماخذ:عباسی مقدم، مصطفی، «بررسی متنی و سندی روایت شد رحال»، در مجلہ حدیث‌ پژوہی، پاییز و زمستان ۱۳۹۱ش، شماره ۸.عباسی، حبیب، «رد نظر وہابیت از سوی اہل سنت در حرمت زیارت قبور»، در مجلہ سراج منیر، پاییز و زمستان ۱۳۹۱ش، شماره ۷ و ۸.

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
11 + 4 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 109