خلاصہ: بنی امیہ کا ظلم و ستم اور دین کے خلاف عمل اس قدر بڑھ گیا کہ انہوں نے لوگوں کے دین کو بھی تباہ کردیا اور دنیا کو بھی۔
جناب عثمان سے بیعت کے پہلے دن ابوسفیان نے بنی امیہ کو اکٹھا کرکے یہ کفریہ جملات کہے: "یا بنی امیۃ تلقّفوھا تلقّف الکرۃ فوالذی یحلف بہ ابوسفیان ما من عذاب و لا حساب و لا جنۃ و لا نار و لا بعث و لا قیامۃ"، "خلافت کو گیند کی طرح ہوا میں پکڑو، قسم اس کی جس کی ابوسفیان قسم کھاتا ہے کہ نہ کوئی عذاب ہے اور نہ حساب اور نہ جنت اور نہ جہنم اور نہ دوبارہ اٹھایا جانا اور نہ قیامت"، ہمارا جھگڑا حکومت اور ریاست پر ہے، اب تک بنی ہاشم نے حکومت کی ہے، آج کے بعد بنی امیہ کی باری ہے، اب جو حکومت بنی امیہ کے پاس ہے اسے طاقت سے پکڑ لو، حکومت کو میراث کے طور پر ہمارے گھرانے میں باقی رہنا چاہیے۔
جناب عثمان کے دورِ خلافت میں مختلف شہروں کے لئے جو حکمران مقرر ہوئے اکثر بنی امیہ میں سے یا ان کے حامیوں اور دوستوں میں سے تھے۔ بنی امیہ میں یہ سوچ رائج ہوگئی کہ جو کچھ دین کے بارے میں کہا گیا وہ حقیقت نہیں تھی اور صرف حکومت کرنا مقصد تھا! جو خود اسلام کی بنیاد پر ایمان نہیں رکھتے ان سے کیا توقع ہوسکتی ہے؟
اس دورانیہ میں جو حکمران مقرر ہوتے تھے بادشاہوں کی طرح حکومت کرتے تھے اور اپنے آپ کو "مالک الرقاب" اور لوگوں کے صاحبِ اختیار سمجھتے تھے۔ وہ اس علاقہ کے مال کو اپنے سے متعلق جانتے تھے اور اپنی مرضی سے اس پر قبضہ کرلیتے تھے۔ جناب عثمان کے دور سے عملی طور پر اسلامی حکومت کا رُخ اِس طرف ہوگیا۔ حکمرانوں نے بیت المال میں سے بہت سارا مال اکٹھا کرلیا، لوگوں کے حقوق کو پامال کردیا، کمزور لوگوں پر ظلم کیا یہاں تک کہ مختلف علاقوں کے لوگوں نے تنگ آکر ایک دوسرے سے معاعدہ کرلیا کہ جناب عثمان کو قتل کرڈالیں۔ اسلامی ممالک میں جناب عثمان کے مقرر کردہ حکمرانوں کے ظلم کی وجہ سے لوگوں نے جناب عثمان کو قتل کردیا۔
* ماخوذ از: در پرتو آذرخش، ص۳۰، آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی، قم، موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی رحمہ اللہ، ۱۳۸۱۔
Add new comment