خلاصہ: مبالغہ حقیقی حد سے بڑھا کر بتانے کو کہا جاتا ہے، جبکہ اللہ تعالی کی رحمت انسان کے تصور سے کہیں بڑھ کر ہیں، لہذا اللہ کے بارے میں مبالغہ کا تصور صحیح نہیں ہوسکتا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رحمن عربی ادب کے لحاظ سے صیغہ مبالغہ ہے، اور مبالغہ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی چیز کو اس کی حقیقی حد سے بڑھا کر بتایا جائے۔
لہذا رحمن یعنی "کثیر الرحمۃ"، جس کی رحمت کثیر اور زیادہ ہے۔ رحمن میں صیغہ مبالغہ کا پہلو اللہ تعالیٰ کے بارے میں بے معنی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے بارے میں مبالغہ نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ خداوند متعال کی رحمت کے بارے میں جتنا بتایا جائے، حقیقت سے کم ہے۔ مخلوقات کے بارے میں مبالغہ کیا جاسکتا ہے، مثلاً جو شخص کئی علوم کا عالم ہے اس کے لئے مبالغہ کرتے ہوئے کہا جائے کہ وہ علامہ ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسی بات بے معنی ہے کیونکہ جتنا تصور کرلیا جائے اللہ کے پاس اس تصور سے کہیں زیادہ ہے۔
لہذا اگر کہا جاتا ہے کہ رحمن، صیغہ مبالغہ ہے تو پروردگار متعال کے بارے میں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم نے رحمت میں مبالغہ کرتے ہوئے، رحمت کی اللہ تعالیٰ سے نسبت دی ہے، بلکہ اس کا مطلب یا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت وسیع ہے یا یہ اس مخلوق کے لحاظ سے ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے رحمت نازل کی ہے، یعنی پروردگار متعال عطا اور افاضہ کرتے ہوئے، مخلوق کی لیاقت سے بڑھ کر اسے عطا فرماتا ہے۔ جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت ۲۱۲ میں ارشاد الہٰی ہے: "وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ"، "اور اللہ جس کو چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے"۔ [ترجمہ از: علامہ ذیشان حیدر جوادی اعلی اللہ مقامہ]۔
"بے حساب رزق" یعنی اس شخص کی لیاقت سے زیادہ اسے عطا کرنا، لہذا یہاں پر مبالغہ اس شخص کے لحاظ سے ہے جس پر رحمت نازل ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔
[ترجمہ آیت از: علامہ ذیشان حیدر جوادی اعلی اللہ مقامہ]۔
[ماخوذ از: درس تفسیر استاد حاج سید مجتبي نورمفیدي، جلسہ 7]
Add new comment