خلاصہ: اس مضمون میں توحید ربوبیت یعنی ربّ کی وحدانیت کے بارے میں گفتگو کی جارہی ہے۔
سورہ الحمد کی دوسری آیت "الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ" کے سلسلہ میں، ربّ ہونے کے لحاظ سے اللہ کی وحدانیت پر گفتگو کی جارہی ہے۔
انبیاء(علیہم السلام) کی تبلیغ کا محور و مرکز اور ان کی دشمنوں سے مخالفت کی مرکزی بحث "توحید ربوبی یعنی ربّ کی وحدانیت" ہے۔ بعض دینی تعلیمات کا صرف علمی نتیجہ ہے، لیکن بعض دیگر کا عملی نتیجہ ہے، علمی نتیجہ والی تعلیمات کی مثال توحید خالقیت ہے، اسی لیے حجاز کے وثنیین کو اللہ کی توحید خالقیت کے ماننے سے کوئی انکار نہیں تھا، وہ کہتے تھے: کائنات کو اللہ نے خلق کیا ہے، لیکن خلق کرنے کے بعد اللہ کا کائنات میں کوئی عمل دخل نہیں ہے اور انسان کی بھی اللہ کے سامنے کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ وہ اگرچہ کائنات پر اللہ کی مطلق ربوبیت کو کلی طور پر مانتے تھے، لیکن جزوی طور پر ربوبیت جیسے رب الانسان اور رب الارض کو نہیں مانتے تھے اور اس جزوی ربوبیت کی نسبت بتوں، ستاروں اور مقدس لوگوں سے دیتے تھے اور ان کے لئے مظاہر اور مجسمے بناتے تھے اور ان کی شفاعت حاصل کرنے کے لئے ان کے مظاہر کی عبادت کرتے تھے۔
لہذا کائنات پر اللہ تعالیٰ کی مطلق خالقیت اور ربوبیت کو ماننا آسان ہے، لیکن جزوی ربوبیت ہے جو انسان کو اپنے ربّ کے سامنے ذمہ دار ٹھہراتی ہے اور انبیاء (علیہم السلام) کی لوگوں کو تعلیم یہ تھی کہ اللہ کے سامنے انسان ذمہ دار ہے اور انسان کو چاہیے کہ اللہ کی اطاعت کرے اور وہی اللہ جو خالق ہے وہی ربّ ہے۔
۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[ماخوذ از: تفسیر تسنیم، آیت اللہ عبداللہ جوادی آملی]
Add new comment