خلاصہ: اس مضمون میں ہدایت اور صراط مستقیم کے بارے میں مختصر گفتگو کی جارہی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ملاقات کرنے کے لئے عبد کو ایسی صراط اور راستہ کی ضرورت ہے جو راستہ ٹیڑا ہونے اور شیطان کی رسائی سے محفوظ ہو اور ہدایت کے ایسے نور کا ضرورتمند ہے جو اسے راستہ دکھاتا ہوا آخری مقصد تک پہنچنے کی اسے راہنمائی کرے۔
ہدایت دو طرح کی ہے: ایک، مقصد تک پہنچنے کا راستہ دکھانا، اسے ارائہ طریق کہا جاتا ہے، اور دوسرا، راستے پر چلنے والوں کو مقصد تک پہنچانا، اسے ایصال الی المطلوب کہا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سفر کرنے والا عبد اِس آیت میں اللہ تعالیٰ سے صراط مستقیم کی طرف ہدایت طلب کرتا ہے اور یہ ہدایت وہی تکوینی ہدایت ہے، کیونکہ اللہ کی معرفت اور اس پر ایمان کے بعد، ہدایت کے نور کو طلب کرتا ہے تاکہ اس کی روشنی میں راستے اور گڑھے کو پہچانے اور کیونکہ انسان کی ترقی ہمیشہ جاری ہے اور حق کے راستے کے رتبے بہت سارے ہیں، اللہ کی طرف سفر کرنے والے عبد کو چاہیے کہ صراط مستقیم کی طرف ہدایت کو ہمیشہ، اللہ تعالیٰ سے طلب کرتا رہے۔
صراط وہ بڑا راستہ ہے جو ایک طرف سے اللہ تعالیٰ سے متعلق ہے (اسی لیے ایک ہے کئی نہیں ہیں) اور دوسری طرف سے ایک ایک انسان کی فطرت میں پایا جاتا ہے لہذا اس کو طے کرنا مشکل نہیں ہے اور جو اسے طے کرے وہ اللہ کی ملاقات تک پہنچ جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[ماخوذ از: تفسیر تسنیم، آیت اللہ جوادی آملی، ج۱، آیت کے ذیل میں]
Add new comment