لوگوں کے عیبوں کو اپنے لیے بھی برا سمجھنا

Mon, 07/29/2019 - 19:07

خلاصہ: اگر دوسروں کے عیب برے لگتے ہوں تو اپنے عیب بھی برے لگنے چاہئیں۔

لوگوں کے عیبوں کو اپنے لیے بھی برا سمجھنا

     اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسان کو جو عیب لوگوں میں دکھائی دیتے ہیں اور لوگوں کے لئے ان کو برا سمجھتا ہے تو اسے چاہیے کہ ان جیسے عیبوں کو اپنے اندر تلاش کرے۔ پھر کیا اپنے آپ کو بھی ان عیبوں سے منع کرے گا اور ان عیبوں سے نفرت کرے گا یا لاپرواہی کرتے ہوئے اپنا مواخذہ نہیں کرے گا، لیکن لوگوں کے عیبوں کو دیکھ کر ان پر اعتراض کرے گا؟
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) نہج البلاغہ کی حکمت ۳۴۹ میں ارشاد فرماتے ہیں: "مَنْ نَظَرَ فِي عُيُوبِ النَّاسِ، فَأَنْكَرَهَا، ثُمَّ رَضِيَهَا لِنَفْسِهِ، فَذلِكَ الاْحْمَقُ بِعَيْنِهِ"، "جو شخص لوگوں کے عیبوں کو دیکھے تو ان عیبوں کو برا سمجھے، پھر ان عیبوں کو اپنے لیے پسند کرے تو وہ شخص واقعی بیوقوف ہے"۔
اگر آدمی کو کوئی عیب لوگوں میں دکھائی دے تو اسے برا سمجھے تو اسے چاہیے کہ اگر اپنے اندر اس عیب کو پائے تو اسے بھی برا سمجھے، لہذا جیسے وہ چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ اس عیب کو یعنی غلط کام، بری صفت یا غلط سوچ سے پرہیز کریں اسی طرح اسے چاہیے کہ خود بھی اپنے عیب کو ختم کرے اور اگر اپنے لیے اس عیب کو پسند کرتا ہے تو وہ واقعی بیوقوف ہے۔
انسان کی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ جو چیز حقیقت میں بری ہے اور انسان اسے پسند نہیں کرتا تو وہ انسان کو کسی کے لئے بھی پسند نہیں ہونی چاہیے، چاہے اپنے لیے اور چاہے لوگوں کے لئے۔
مثال کے طور پر مرد کی غیرت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی ناموس کو کوئی نامحرم نہ دیکھے، اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد اس بات کو دوسروں کے لئے عیب سمجھتا ہے کہ اس کی ناموس کی طرف کوئی نامحرم دیکھے، پھر اگر وہ خود لوگوں کی ناموس کی طرف دیکھتا ہے اور اس دیکھنے کو اپنے لیے پسند کرتا ہے تو یہ کیسا آدمی ہے؟! اسے چاہیے کہ نامحرم کی طرف دیکھنے کو اپنے لیے بھی عیب سمجھے اور اس سے پرہیز کرے۔

* نہج البلاغہ، حکمت ۳۴۹، سید رضی علیہ الرحمہ۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
4 + 7 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 83