خلاصہ: پڑوسی کو اذیت دینے والا جنت کی بو بھی نہیں سونگھیگا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دینِ اسلام نے تو غیروں اور اجنبیوں کو بھی آسانیاں دینے کی تعلیم دی ہے، حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد کی ادائیگی کی اہمیت اور تاکید احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے، والدین اور رشتے داروں، ضرورت مندوں اور پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی معاشرے کو مستحکم کرتی ہے۔
والدین کے بعد ہمارے پڑوسی ہی ہیں جن سے ہمارا زیادہ واسطہ پڑتا ہے، ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی بارہا تاکید فرمائی گئی ہے، انہیں تکلیف دینے پر آخرت میں سزا کی وعید سنائی گئی ہے جیساکہ اس حدیث سے واضح ہے جس میں رسول خدا(صل اللہ علیہ و آلہ و سلم) ارشاد فرمارہے ہیں: «مَن آذی جارَهُ حَرَّمَ اللهُ عَلَیهِ ریحَ الجَنَّةِ وَ مَأواهُ جَهَنَّمُ وَ بِئسَ المَصیرُ؛ جو کوئی اپنے پڑوسی کو اذیت پہونچائے اللہ اس کے پر جنت کی بوکو بھی حرام کرتا ہے اس کا ٹھکانہ جھنم ہے اور وہ کتنا برا ٹھکانہ ہے»[ بحار الأنوار، ج:۷۱، ص:۱۵۰]۔
اس روایت سے یہ بات واضح ہے کہ اگر ہمیں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آنا چاہئے۔
* بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، محمد باقر بن محمد تقى مجلسى، دار إحياء التراث العربي، ج:۷۱، ص:۱۵۰، ۱۰۳ ق.
Add new comment