خلاصہ: ہمارے اطراف کے 160 گھر ہمارے پڑوسی کہلاتے ہیں۔
انسان کا اپنے والدین، اپنی اولاد اور قریبی رشتہ داروں کے علاوہ سب سے زیادہ واسطہ و تعلق، لین دین کا سابقہ ہمسایوں اور پڑوسیوں سے بھی ہوتا ہے اور اس کی خوشگواری و ناخوشگواری کا زندگی کے چین وسکون اور اخلاق کے اصلاح و فساد اور بناؤ بگاڑ پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) بڑوسی کی اہمیت کو مدّ نظر رکھتے ہوئے فرمارہے ہیں:«كُلُ أَرْبَعِينَ دَاراً جِيرَانٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهِ وَ عَنْ يَمِينِهِ وَ عَنْ شِمَالِه؛ چاروں طرف(دائیں بائیں آگے پیچھے) چالیس چالیس گھر انسان کے ھمسایہ شمار ہوتے ہیں»[ کافی، ج:۲، ص:۶۶۹]۔
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی حدیث کی روشنی میں اپنے گھر کے کے اطراف کے چالیس گھروں کو پڑوسی کہا جاتا ہے تو ان 160گھروں کی بانسبت ہماری ذمہ داری بھی اتنی ہی سخت ہوجاتی ہے۔
معصومین(علیہم السلام) کی احادیث کی روشنی میں ان 160 گھروں کا خیال کرنا ہمارے دینی ذمہ داری بنتی ہے، اگر کوئی ان گھروں مین پریشان ہے اور ہم سکون کی زندگی بسر کر رہے ہیں تو کل ہم سے ان کے بارے می سوال کیا جائیگا۔
*کافی، محمد ابن یعقوب کلینی، ج:۲، ص:۶۶۹دارالكتب الإسلامية، تھران، چوتھی چاپ، ۱۴۰۷۔
Add new comment